وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے میں ملوث ملزم زیرِ حراست ہے۔ حملے کے محرکات اور اس کے پیچھے چھپی سازش کا پتہ چلانے کیلئے ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جا چکی ہے۔ اسی اثنا میں ملزم کے اقبالی بیان کی جو تفصیلات میڈیا میں جاری ہوئی ہیں‘ ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی سے کس قدر خطرناک رجحانات جنم لے چکے ہیں۔ اگرچہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ہی صورتحال مکمل طور پر واضح ہو گی‘ لیکن اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جناب احسن اقبال ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا شکار ہوئے ہیں۔ حالانکہ جناب احسن اقبال خود ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں‘ لیکن جب مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ آج سے چار سال پہلے جب دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا تو مذہبی انتہا پسندی کو دہشت گردی کی اصل بنیاد قرار دے کر اسے جڑ سے اکھاڑ نے کیلئے چند سفارشات مرتب کی گئی تھیں۔ ان میں انتہا پسند تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں کے علاوہ نفرت پھیلانے والے لٹریچر کی اشاعت اور مذہبی جذبات بھڑکانے والی تقریروں اور بیانات پر سختی سے پابندیاں عائد کرنے جیسی سفارشات بھی شامل تھیں‘ لیکن افسوس کہ نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں نے اس پر عمل درآمد یقینی بنایا۔ اس کے برعکس ایسی تنظیموں کو سرگرمیاں جاری رکھنے اور رہنمائوں کو نفرت انگیز بیانات دینے کی کھلی چھٹی ملی رہی۔ جیسا کہ پاکستان کے فاضل چیف جسٹس‘ جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے بلوچستان میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حال ہی میں فرمایا کہ اس قتل عام میں ملوث عناصر کو کھلے عام جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی آزادی ہے اور ان کے اشتعال انگیز بیانات کو میڈیا نہ صرف نمایاں طور پر شائع کرتا ہے بلکہ ان کے بیانیہ کو تقویت دینے والے تبصرے بھی ٹی وی ٹاک شوز میں پیش کئے جاتے ہیں۔
جناب احسن اقبال پر اس حملے کی نہ صرف ملک کے اندر تمام سنجیدہ اور محب وطن حلقوں کی طرف سے مذمت کی گئی بلکہ پاکستان سے باہر بھی اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا گیا۔ اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا کے اہم ممالک کی حکومتوں کی طرف سے بھی اس حملے کی مذمت کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احسن اقبال پاکستان مسلم لیگ ن کے ہی ایک مرکزی اور اہم رہنما نہیں ہیں بلکہ ملک کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ ان پر قاتلانہ حملے سے پاکستان کی مخدوش سکیورٹی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کی وجہ سے قوم پہلے ہی داخلی مسائل سے دوچار ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملے سے ایک طرف اندرونی سلامتی کی مخدوش صورتحال کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندانہ رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے یہ رجحانات اور ان پر مبنی باہر کی دنیا میں پاکستان کے امیج کی تشکیل‘ دونوں انتہائی خطرناک مضمرات کے حامل ہیں کیونکہ پاکستان کوئی عام اور معمولی ملک نہیں۔ 21 کروڑ آبادی کا ہمارا ملک نہ صرف ایک اہم جغرافیائی محل وقوع کا مالک ہے بلکہ ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہے۔ انتہا پسند عناصر کی بڑھتی ہوئی قوت سے چشم پوشی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے حلقوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ ان کوتاہ اندیشانہ اور موقع پرستانہ پالیسیوں سے پاکستان کو کس قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا‘ جب آئندہ انتخابات میں محض چند ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ احسن اقبال اپنے حلقے کے ایک مضبوط اور ہردلعزیز امیدوار برائے قومی اسمبلی ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ضلع نارووال میں صحت‘ تعلیم‘ سپورٹس اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں اہم منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف‘ جنہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر دیگر سیاسی عہدوں کیلئے بھی تاحیات نااہل قرار دیا جا چکا ہے‘ کے قریبی ساتھی ہیں۔ ان پر قاتلانہ حملے سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ اس کا مقصد آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کو کھلے عام اور آزادانہ مہم چلانے سے روکنا ہے۔ اس طرح 2013ء کے انتخابات کی تاریخ دہرائے جانے کا خطرہ ہے‘ جب ملک کی تین اہم سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی‘ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائیوں اور دھمکیوں نے ان پارٹیوں کے امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران تقریباً گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بلا خوف و خطر بھرپور انتخابی مہم چلائی اور کامیابی حاصل کی۔ 2013ء کے انتخابی نتائج پر پیپلز پارٹی اور اے این پی‘ دونوں کو تحفظات تھے‘ لیکن جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر ان پارٹیوں نے انتخابی نتائج قبول کئے؛ تاہم پاکستان مسلم لیگ ن اس قسم کے ہتھکنڈوں سے مصالحت کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ اس کے قائد میاں محمد نواز شریف ایک سے زیادہ موقع پر کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی کو آزادانہ طور پر آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنی نااہلی اور مقدمات کا حوالہ دینے کے علاوہ پنجاب میں نیب کی غیر معمولی سرگرمیوں اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو مبینہ طور پر دھمکیوں سے وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے واقعات کی مثال بھی دی۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر بقول ان کے‘ یہ انتقامی کارروائیاں جاری رہیں تو ان کی پارٹی آئندہ انتخابات کے نتائج قبول نہیں کرے گی۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے سے مسلم لیگ ن کے موقف میں مزید سختی آ سکتی ہے۔ اگر حکومتی سطح پر حالات میں بہتری لانے کے لیے مناسب اور ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ بھی اس قسم کے واقعات ہونے کا خطرہ بدستور موجود رہے گا۔ فی الحال انتہا پسند عناصر کی حوصلہ شکنی اور سرکوبی کیلئے کسی قسم کے اقدامات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ چند دنوں تک اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرکے ختم ہو جائیں گی‘ اور موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جگہ عبوری حکومتیں اقتدار سنبھال لیں گی‘ اور عبوری ہونے کی وجہ سے ان حکومتوں کے اختیارات محدود ہوں گے۔ اس کے باوجود انہیں (عبوری حکومتوں کو) انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ انتخابی عمل کو پُرامن ماحول میں شفاف اور سب کے لئے قابل قبول بنایا جا سکے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے مرتکب عناصر کی مذمت کی جاتی ہے اور اس کے خلاف کارروائیاں بھی کی جاتی ہیں‘ لیکن انتہا پسندی اور دہشت گردی کا آپس میں جو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسے تسلیم نہیں کیا جاتا‘ بلکہ بعض حلقوں میں انتہا پسندوں کے لئے نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان اب تک دہشت گردی کے خلاف ایک جامع حکمت عملی وضع نہیں کر سکا‘ اور اگر کوئی حکمت عملی تشکیل دی بھی گئی اور اس پر عمل ہو رہا ہے تو اس میں صرف طاقت کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی کیونکہ دہشت گردی ایک سوچ‘ ایک نظرئیے اور ایک بیانئے کا نام ہے۔ جو لوگ انتہا پسندی کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ حقیر سیاسی مفاد کیلئے اسے ہوا دیتے ہیں‘ وہ پاکستان کے اصل دشمن ہیں کیونکہ ان کی سیاسی موقعہ پرستی اور منافقت سے دہشت گردی کے زہریلے پودے تناور درخت بننے کیلئے پانی اور کھاد حاصل کرتے ہیں۔