"DRA" (space) message & send to 7575

ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری

یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب کبھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے کسی اقدام کی خبر آتی ہے، کشمیر میں جنگ بندی کی سرحد یعنی لائن آف کنٹرول (LOC) کے آر پار توپوں کے منہ کھل جاتے ہیں اور گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بننے والوں میں بیشتر معصوم شہری ہوتے ہیں۔ پچھلے جمعہ کے روز ریاست جموں و کشمیر سے ملنے والی سرحد یعنی ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز کے مطابق بھارتی سرحدی فوج کی طرف سے ورکنگ بائونڈری کے پار پاکستانی علاقے پر فائرنگ سے چھ پاکستانی شہری شہید ہوئے‘ جن میں ایک خاتون اور اس کے تین بچے بھی شامل ہیں۔ 22 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے درمیان ان جھڑپوں میں جانی نقصان اس سے زیادہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی بھی کی گئی۔
بھارتی اور غیر ملکی نیوز ایجنسیوں کے مطابق پاکستان نے اپنے دفاع میں بھارت کی سرحدی افواج کے بعض مورچوں اور پوسٹوں کو نشانہ بنایا تھا‘ جس کے نتیجے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک جوان کے علاوہ تین شہری بھی ہلاک ہوئے۔ پچھلے قریباً دو ہفتوں سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر حالات پُرسکون تھے۔ اس لئے اس آگ کے اچانک بھڑکنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی‘ تاہم گزشتہ چار پانچ برسوں سے لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے کے مورچوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا جو سلسلہ جاری ہے‘ جمعہ کے روز کی فائرنگ اس میں سب سے زیادہ شدید تھی۔ پاکستان نے اس پر بھارت سے سخت احتجاج کیا ہے اور اپنے اس احتجاج کو ریکارڈ پر لانے کیلئے اسلام آباد میں مقیم بھارت کے ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب بھی کیا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کی خبریں آ رہی تھیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور اختلافات دور کرنے کیلئے بیک چینل (Back Channel) ڈپلومیسی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اس ڈپلومیٹک میکنزم میں ریٹائرڈ سفارت کار اور جرنیل شامل ہیں۔ ماضی میں بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ریاست جموں و کشمیر میں منقسم خاندانوں کے افراد کو آپس میں ملانے کے لئے مظفر آباد، سری نگر بس سروس کے اجرا اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت کی راہ ہموار کرنے میں بیک چینل ڈپلومیسی نے بہت اہم اور کامیاب کردار ادا کیا تھا۔ بیک چینل ڈپلومیسی کی اس کوشش نے نیم رانا ڈائیلاگ (Neemrana Dialogue) بھی کہتے ہیں۔ اس نے 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات یعنی کمپوزٹ ڈائیلاگ شروع کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
اپریل کے تیسرے ہفتے میں لندن میں کامن ویلتھ کے رکن ممالک کی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے بھی اس میں شرکت کی تھی‘ لیکن دونوں کے درمیان ملاقات ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے اور خیریت دریافت کرنے تک محدود رہی تھی‘ تاہم اس قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (NSA) آپس میں ملاقات کرکے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے سلسلے کو بند کروانے کی کوشش کریں گے‘ کیونکہ بین الاقوامی حلقوں‘ جن میں چین بھی شامل ہے‘ میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی وجہ سے سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت نے احتیاط سے کام نہ لیا‘ تو لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے ایک بڑے تصادم کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ لیکن بین الاقوامی برادری کی طرف سے تشویش کے اظہار کے باوجود بھارت نے موت اور آگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ دونوں ملکوں نے 2003ء میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ سے اجتناب اور امن قائم کرنے کیلئے ایک دو طرفہ معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس معاہدے کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر قریباً ایک دہائی تک امن قائم رہا۔ اس دوران جو لوگ آئے دن کی فائرنگ اور گولہ باری سے تنگ آ کر سرحد سے دور اپنے رشتے داروں یا کھلے آسمان تلے اپنے مال مویشی یا اہل خانہ کے ساتھ پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے ‘پھر اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ ان کے آنے سے بنجر اور بے آباد زمینوں میں ہری بھری فصلیں لہلہانے لگیں۔ سکول آباد ہو گئے اور زندگی کی اہم ضروری اشیاء فراہم کرنے والے دکانداروں نے اپنا کاروبار سنبھال لیا تھا‘ لیکن اس دفعہ پاکستان سے ملنے والی اس سرحد پر بھارت نہ جانے کے لیے جوان متعین کئے ہیں کہ انہیں پاکستانی علاقوں میں نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ 
پاکستان نے بھارت کو اس صورتحال کا مکمل طور پر ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی رہنمائوں کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا ہے کہ بھارت کشمیر میں اپنی پالیسیوں کی ناکامی سے پہلے ہونے والی صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس دفعہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ کا تبادلہ ایک ایسے وقت پر ہوا جب بھارتی وزیراعظم مودی مقبوضہ کشمیر کے دورے پر تھے۔ اطلاعات کے مطابق نریندر مودی کے دورے کے موقعہ پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان حفاظتی اقدامات میں پاکستان سے ملنے والی سرحدوں کی غیر معمولی دیکھ بھال اور سکیورٹی بھی شامل ہو۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر دونوں ملکوں کی بارڈر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے سلسلے کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان واقعات یعنی بھارت کی جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ پاکستان کادعویٰ ہے کہ بھارت پاکستانی علاقوں پر بھاری مارٹر اور دور مار توپوں سے گولہ باری کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے گھر اور سکول اور ہسپتال کی عمارتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور سرحد سے دور ہٹنے کے باوجود لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں۔
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی افواج کی متواتر فائرنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس یعنی 2017ء میں بھارتی فائرنگ سے شہادت پانے والے پاکستانیوں کی تعداد 1917 تھی۔ جنوبی ایشیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا اگر غور سے جائزہ لیا جائے ‘تو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر ایک دوسرے کو ہلکے اور بھارتی ہتھیاروں کا نشانہ بنانا بالکل ایک غیر منطقی اور بے سود اقدام نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کشمیری مسلمان آباد ہیں اور فائرنگ پاکستان کی طرف سے ہو یا بھارت کی طرف سے‘ دونوں صورتوں میں نقصان غریب کشمیریوں کا ہے کیونکہ انہیں کھیتی باڑی، مال مویشیوں کی نگرانی اور مال و متاع کی حفاظت کیلئے اپنے گھروں اور زمینوں کے قریب خطرات کے باوجود رہنا پڑتا ہے۔
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے آر پار فائرنگ اور گولہ باری روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت نے 2003ء میں سرحدوں کو پر امن رکھنے کیلئے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ یہ معاہدہ ابھی قائم ہے۔ اگرچہ گزشتہ چار پانچ برسوں کی متواتر خلاف ورزیوں کی بنا پر یہ معاہدہ عملاً غیر موثر ہو چکا ہے۔ تاہم ختم نہیں ہوا۔ اس لئے اگر جنوبی ایشیا کے خطے کو ایک بڑی جنگ جو کہ ایک ایٹمی جنگ کی بھی صورت اختیار کر سکتی ہے سے بچانا مقصود ہے تو ضروری ہے کہ بھارت 2003ء کے اس معاہدے پر سختی سے عمل کرے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں