بہت سے نشیب و فراز کے بعد اب قدرے یقین اور وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ 2018 ء کے پارلیمانی انتخابات 25 جولائی کو ہی ہوں گے‘ کیونکہ قائم مقام وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے دو ٹوک الفاظ کہہ دیا ہے کہ جو مرضی ہو جائے‘ انتخابات وقت پر‘ یعنی25 جولائی کو ہی ہوں گے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو‘ جس کے تحت امیدواروں کی نامزدگیوں کے فارم کو مسترد کر دیا گیا تھا‘ کالعدم قرار دینے کے بعد الیکشن کمیشن نے نیا انتخابی شیڈول جاری کرنے میں ذرہ بھر بھی تاخیر نہیں کی۔ جبکہ ریٹرننگ آفیسرز نے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی وصول کرنا شروع کر دیئے۔ الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کو انتخابی نشانات الاٹ کر چکا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں نے ٹکٹ الاٹ کرنے کے لئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیئے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پندرھویں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے لئے سٹیج تیار ہے۔ اگرچہ اب بھی کہیں کہیں سے انتخابات کو مختلف وجوہات کی بناء پر ملتوی کرنے کے حق میں آوازیں بدستور آرہی ہیں لیکن تمام بڑی سیاسی جماعتوں، عبوری حکومت اور خود فاضل چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے واضح یقین دہانی کے سامنے یہ آوازیں کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہیں اور سیاسی پارٹیوں کو یقین آنا شروع ہوگیا ہے کہ آئندہ انتخابات وقت پر ہی ہونے جا رہے ہیں۔
اس پُرامید فضا کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی ہیں جس کی سب سے نمایاں شکل سیاسی جماعتوں کی طرف سے نئی صف آرائیاں ہیں۔ کچھ پارٹیاں توڑ پھوڑ کے عمل کا شکار ہیں اور بعض نئے آنے والے ارکان کو خوش آمدید کہنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل ویسے تو پورے ملک میں جاری ہے لیکن پنجاب اس میں سب سے آگے ہے‘ جہاں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے اب تک پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے درجنوں سابق اراکینِ قومی اور صوبائی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس کیٹیگری میں شامل ہونے والے تازہ ترین رہنما پنجاب کے سابق گورنر اور ڈی جی خان کی سرکردہ سیاسی شخصیت سردار ذوالفقار خان کھوسہ ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ اپنے پورے خاندان کی بھی پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے‘ جس میں ان کا سب سے چھوٹا بیٹا دوست محمد کھوسہ بھی شامل ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے ذمہ دار حلقوں نے دوست محمد کھوسہ کی شمولیت کی تردید کی ہے‘ اور اس کی وجہ فلم ایکٹریس سپنا کے قتل میں ملوث ہونے کا ان پرعائد الزام ہے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ پرانے مسلم لیگی ہیں اور انہوں نے آمرانہ حکومت کے دبائو کے باوجود شریف برادران کا ثابت قدمی سے ساتھ دیا تھا۔ شریف برادران نے بھی نہ صرف انہیں پنجاب کا گورنر بلکہ ان کے چھوٹے بیٹے دوست محمد کھوسہ کو پنجاب کا قائم مقام وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر بلدیات بنا کر ان کی خدمات کا بدلہ دینے کی کوشش کی تھی‘ لیکن کچھ عرصہ سے سردار ذوالفقار کھوسہ شریف برادران سے کھچے کھچے چلے آر تھے اور متعدد مواقع پر انہوں نے شریف برادران سے اپنی شکایات کا برملا اظہار بھی کیا۔ اطلاعات کے مطابق شریف برادران سے ان کی ناراضگی کا سبب بھی دوست محمد کھوسہ کے خلاف درج قتل کا مقدمہ ہے۔ سردار ذوالفقار چاہتے تھے کہ پنجاب کی حکومت قتل کے اس مقدمے میں ان کے بیٹے کی مدد کرے‘ لیکن سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس سے معذرت کرلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں شمولیت کے موقع پر سردار ذوالفقار کھوسہ نے شہباز شریف پر اپنے بیٹے کو اس مقدمہ میں ملوث کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ''جنوبی پنجاب صوبہ تحریک ‘‘ کے رہنمائوں کے بعد کھوسہ قبیلے کے سربراہ کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اول الذکر کیلئے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے اور ان واقعات کے بعد ''ن‘‘ لیگ کو جنوبی پنجاب میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم کھوسہ قبیلے کی علیحدگی کے بعد ''ن‘‘ لیگ کو لغاری قبیلے پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ ''ن ‘‘ لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے اراکین اسمبلی کا تعلق صرف جنوبی پنجاب سے نہیں بلکہ وسطی اور شمالی پنجاب سے بھی بہت سی اہم شخصیات سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان سب کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابقہ اراکین اسمبلی بھی اپنی پارٹی کو خدا حافظ کہہ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان میں منڈی بہائوالدین سے پیپلزپارٹی کے سابقہ وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اور سرگودھا سے پارٹی کے ایک سابق ایم این اے ندیم افضل چن کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن پارٹیوں کو چھوڑ کر یہ شخصیات جنہیں عرف عام میں ''الیکٹیبلز‘‘ (Electables) کا نام دیا جا رہا ہے، دوسری پارٹیوں میں شامل ہوئے ہیں‘ ان پارٹیوں کو یقیناً دھچکا لگا ہے لیکن کیا پی ٹی آئی کو ان کی شمولیت سے کوئی نمایاں فائدہ پہنچنے کا امکان ہے؟ پی ٹی آئی کے حلقے تو یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ''ن‘‘ لیگ اور پیپلز پارٹی کی صفوں سے نکل کر آنے اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی وجہ سے اقتدار کی منزل ان کے بہت قریب آگئی ہے‘ لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ متعدد سروے ظاہر کرتے ہیں کہ وفاداریوں میں تبدیلی کے اس عمل سے ''ن‘‘ لیگ کی ہر دلعزیزی میں کمی واقع نہیں ہوئی اور الیکٹیبلز کے چلے جانے سے (ن) لیگ کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کے امکانات متاثر نہیں ہوں گے۔ گیلپ پاکستان کے چیئرمین قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق پروفیسر اور ممتاز پولیٹیکل سائنٹسٹ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کی ریسرچ کے مطابق پاکستان کے سابقہ دس انتخابات میں امیدواروں کے حق میں ڈالے جانے ووٹوں کے رجحانات سے پتہ چلتا ہے، کہ بیشتر حالات میں ووٹر اپنے ووٹ کو استعمال کرتے وقت شخصیات کی بجائے، پارٹی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لئے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ جن بااثر شخصیات نے اپنی پارٹیاں چھوڑی ہیں‘ وہ اپنا ووٹ بینک کی بھی ساتھ لے گئی ہیں۔ یہی اصول صوبہ سندھ پر بھی صادرہوتا ہے جہاں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اہم عہدوں پر رہنے والے میاں بیوی سابق صوبائی وزیر داخلہ جناب ذوالفقار مرزا اور سابق سپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر پیر آف پگاڑا کی سرکردگی میں قائم ہونے والے ''گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘‘ (جی ڈی اے) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ ذوالفقار مرزا اور ان کی بیگم کے اس فیصلے سے پیپلزپارٹی یقیناً رنجیدہ ہے‘ لیکن کیا ان کی شمولیت سے جی ڈی اے کی انتخابات میں کارکردگی پر کوئی بڑا اثر پڑے گا؟ میرے خیال میں اس بات کا بہت کم امکان ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس اتحاد میں شامل کوئی بھی سیاسی جماعت عوامی اعتماد پر پورا نہیں اترتی۔ ان میں شامل بعض پارٹیاں اور شخصیات ایسی ہیں جو ماضی میں برسراقتدار رہ چکی ہیں اور اپنے دور میں ان کی پرفارمنس قابل رشک نہیں رہی۔ دوسرے پیپلزپارٹی صرف زرداری اور فریال تالپور کا نام لیتی ہے۔ پارٹی میں نوجوان قیادت‘ خصوصاً بلاول بھٹو‘ عوام کو انسپائر کر رہی ہے۔ خود وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ‘ جو نوجوان بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی، نے گڈگورننس کی اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس لئے ذوالفقار مرزا اور ان کی بیگم کے جانے سے سندھ میں پیپلزپارٹی کیلئے انتخابات میں کوئی خاص مشکلات پیدا نہیں کرسکے گا۔