وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے اعلان کے بعد اس خطے میں تو آبادیاتی دور کی نشانیوں کو مٹانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ان نشانیوں میں سب سے اہم اور نمایاں پولیٹکل ایجنٹ کا عہدہ تھا۔ وسیع اختیارات کا مالک ہونے کی وجہ سے پولیٹکل ایجنٹ کو قبائلی علاقوں میں ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت حاصل تھی‘ مگر حکومت کے تازہ ترین اعلان کے مطابق اب پولیٹکل ایجنٹ کے عہدے کا نام تبدیل کر کے اسے ڈپٹی کمشنر ایڈیشنل پولیٹکل ایجنٹ کو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کو اسسٹنٹ کمشنر کا نام دیا گیا ہے۔ انگریزوں نے اپنے دور میں قبائلی علاقوں کو باقاعدہ طور پر برٹش انڈیا کا حصہ نہیں بنایا تھا‘ بلکہ اسی کے انتظام و انصرام کیلئے الگ قانونی اور سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا۔ اسی ڈھانچے کی عمارت بدنام زمانہ کالے قانون ''فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز‘‘ (FCR) پر کھڑی تھی‘ لیکن اس پورے نظام میں مرکزی حیثیت پولیٹکل ایجنٹ کو حاصل تھی۔ انگریزوں کے دور میں سب سے پہلا پولیٹکل ایجنٹ خیبر ایجنسی میں مقرر کیا گیا تھا۔ ان کا نام واربرٹن تھا۔ ان کی والدہ افغان تھی ‘جس کا افغانستان کے ایک حکمران امیر دوست محمد خان کے خاندان سے تعلق تھا۔
انیسویں صدی کے آخر میں قبائلی علاقوں کو پانچ ایجنسیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد قبائلی علاقہ جات سات ایجنسیوں پر مشتمل تھے۔ جنہیں اب بتدریخ صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے گا۔ ہر ایجنسی میں ایک پولیٹکل ایجنٹ کام کر رہا تھا؛ اگرچہ نئی پالیسی کے تحت اب پولیٹکل ایجنٹ کو ڈپٹی کمشنر کہا جائے گا‘ لیکن اختیارات کے اعتبار سے پولیٹکل ایجنٹ کا عہدہ ڈپٹی کمشنر کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور با اختیار تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پولیٹکل ایجنٹ کے ہاتھ میں صرف انتظامی اختیارات نہیں تھے‘ بلکہ قانونی اور سیاسی اختیارات بھی اسے حاصل تھے‘ کیونکہ قبائلی علاقوں میں پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود آئین اور آئینی اداروں کی حاکمیت نہیں تھی۔ اس لیے آئین کے تحت جو بنیادی انسانی‘ قانونی، سیاسی اور سماجی حقوق‘ ملک کے دیگر حصوں میں آباد پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں‘ وہ فاٹا کے عوام کو حاصل نہیں تھے۔ ان علاقوں کا انتظام و انصرام چلانے اور لوگوں کی سیاسی‘ سماجی اور معاشی زندگی کو ریگولیٹ کرنے کیلئے آئین کی بجائے ایف سی آر کی عملداری قائم تھی‘ جس طرح پاکستان میں عدلیہ کا نظام قائم ہے۔صوبوں میں ہائی کورٹس اور مرکز میں سپریم کورٹ موجود ہیں۔ قبائلی علاقوں میں تمام اختیارات پولیٹکل ایجنٹ کی ذات میں مرکوز تھے۔
پولیٹکل ایجنٹ ہر ایجنسی کا انتظامی سربراہ ہی نہیں تھا‘ بلکہ وہ دوسری ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات اور روابط میں اپنی ایجنسی کی نمائندگی بھی کرتا تھا۔ اس طرح اسے ایک سفارت کار کی بھی حیثیت حاصل تھی۔ ایف سی آر کے تحت حراست میں لینے والے افراد کی ضمانت‘ حبس بے جا کے تحت عدالت میں پیشگی یا سزا کے خلاف کسی اعلیٰ عدالت میں اپیل کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ان سب معاملات میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار پولیٹکل ایجنٹ کے پاس تھا۔ مقدمات کا فیصلہ کرنے میں پولیٹکل ایجنٹ کسی قانون کا پابند نہیں تھا‘ کیونکہ ایف سی آر کے تحت قانون شہادت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایف سی آر کے تحت پولیٹکل ایجنٹ کسی کو بھی عمر قید کی ہتک سزا دے سکتا تھا اور اس کے فیصلے کے خلاف کسی اپیل کی گنجائش نہیں تھی۔ واحد ادارہ جہاں اس قسم کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی تھی‘ وہ ڈویژنل کمشنر یا گورنر تھا۔ ایجنسی میں پولیٹکل ایجنٹ کے کردار کو مزید مؤثر اور طاقت ور بنانے کیلئے اسے اپنی مکمل صوابدید کے مطابق قبائلی باشندوں کو مختلف مراعات اور فوائد پہنچانے کے وسیع اختیارات حاصل تھے۔ برطانوی حکومت نے قبائلی باشندوں کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے ان کیلئے رعایات‘ مراعات اور اعزازات کا ایک نظام قائم کر رکھا تھا۔ ان میں ہر قبیلے کے لیے نقدی کی صورت میں الائونس اور انفرادی طور پر' منگی‘ اور 'ملک ‘کے ٹائٹل شامل تھے۔ پورے قبائلی علاقوں میں ساڑھے تین ہزار ملک موجود تھے اور انہیں مقامی یا قبائلی لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ 1996ء میں بالغ رائے دیہی کے اصول کے نفاذ سے قبل قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستوں پر انتخاب کیلئے انہی ملکوں پر مشتمل حلقہ قیابت تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ کسی قبائلی کو 'ملک‘ کا اعزاز دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی سفارش پر ہر ملک کے لیے الائونس میں کمی یا اضافہ کیا جا سکتا تھا؛ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ اس سرکاری الائونس کی حیثیت محض نمائشی رہ گئی تھی۔ ہر پولیٹکل ایجنٹ کے پاس ملکوں اور دیگر منظور نظر افراد میں تقسیم کیلئے خفیہ فنڈز کی ایک خطیر رقم موجود ہوتی تھی۔ اس کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا تھا اور اس خفیہ فنڈ کو جاسوسی پر مامور افراد‘ مذہبی رہنمائوں یا وفادار ملکوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
قبائلی سطح پر امن و امان کے قیام کیلئے ایک خاصہ دار نیم عسکری فورس بھی قائم تھی۔ اس کے اراکین کو مقامی قبائل سے لیا جاتا ہے اور ان کی تعیناتی بھی ان ہی قبائل کے علاقوں میں کی جاتی ہے۔ اس فورس میں بھرتی کرنے کے تمام اختیارات پولیٹکل ایجنٹ کے پاس تھے۔ من پسند قبائلیوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ اس طرح قبائلی علاقوں سے سیٹلڈ ایریا میں قیمتی عمارتی لکڑی لانے کیلئے امپورٹ لائسنس کا اجرا بھی پولیٹکل ایجنٹ کے دائرہ اختیار میں شامل تھا اور اس کے تحت قبائلی لوگوں کی وفاداریاں خریدی جاتی تھیں۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں بھی باہر سے ضروری اشیاء مثلاً گندم لانے کیلئے اجازت نامہ بھی پولیٹکل ایجنٹ جاری کرتا تھا۔ قومی درآمدی پالیسی کے تحت امپورٹ پرمٹ کا فاٹا کیلئے کوٹہ مختص کیا جاتا تھا۔ ان امپورٹ پرمٹ کو تقسیم کرنے کا اختیار پولیٹکل ایجنٹ کے پاس تھا۔ اور یہ ایک بہت منافع بخش کاروبار تھا‘ جن لوگوں میں یہ امپورٹ پرمٹ تقسیم کیے جاتے تھے ‘وہ حاصل کرنے کے بعد انہیں لاکھوں روپے کے عوض بیچ دیتے تھے۔ اسی طرح ترقیاتی سکیموں میں ٹھیکے دینے کا اختیار بھی پولیٹکل ایجنٹ کے پاس تھا۔ حکومت پاکستان نے ملک کے دیگر حصوںمیں تعلیمی اداروں مثلاً؛میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے‘ سنٹرل سپریئر سروسز اور فوج میں بھرتی کیلئے فاٹا کیلئے مخصوص نشستوں کا سلسلہ قائم کر رکھا تھا۔ اس کیلئے جن لوگوں کی سفارش کی جاتی تھی اس کا فیصلہ بھی پولیٹکل ایجنٹ کرتا تھا؛ چونکہ قبائلی علاقوں میں لاء اینڈ آرڈر کی پوزیشن ہمیشہ ابتر رہی ہے اور صوبہ خیبرپختونخوا یا افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر آمدروفت پر کبھی مؤثر کنٹرول نہیں رہا۔ اس لیے افغانستان کے راستے سامان تعیش کی سمگلنگ ہمیشہ زوروں پر رہی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال خیبر ایجنسی میں باڑہ مارکیٹ کی صورت میں موجود ہے۔
پولیٹکل ایجنٹ کے اختیار میں تھا کہ وہ اس غیر قانونی کاروبار کی روک تھام کے لیے مؤثر اور سخت اقدام کرے‘ لیکن اکثر حالات میں اس کو اس لیے نظر انداز کر دیا جاتا تھا‘ کیونکہ اس کا مقصد چند منظور نظر قبائلیوں کو خوش دیکھنا تھا ؛تا کہ برطانوی حکومت کی گرفت ڈھیلی نہ پڑ سکے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز دور میں پولیٹکل ایجنٹ کے عہدے پر بہترین افسروں کو تعینات کیا جاتا تھا‘ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس معیار کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔ نتیجتاً پولیٹکل ایجنٹ کی اتھارٹی کی جڑیں بھی کمزور پڑنے لگیں‘ لیکن 1979ء میں افغانستان پر روسی قبضہ کے بعد فاٹا کو جس طرح استعمال کیا گیا ‘اس کی وجہ سے پولیٹکل ایجنٹ اور ملکوں کے اختیارات بہت کم ہو گئے۔ ان کی جگہ ''ملائوں‘‘ نے لے لی‘ جن کا کام فتوے جاری کرنا اور جہادی دستے تیار کرنا تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں سول آرمڈ فورسز پولیٹکل ایجنٹ کے ماتحت ہوتی تھیں؛ حالانکہ ان کے کمانڈنگ آفیسرز کا تعلق فوج سے ہوتا تھا‘ لیکن آزادی کے بعد سول آرمڈ فورسز پر کنٹرول آہستہ آہستہ پولیٹکل ایجنٹ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ رہی سہی کسر 9/11 کے بعد کے حالات نے پوری کر دی۔ اب فاٹا میں اصل اختیارات نہ تو پولیٹکل ایجنٹ کے ہاتھ میں ہیں نہ ملکوں کو وہ اہمیت حاصل ہے‘ کیونکہ سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے کی اجازت حاصل ہونے کے بعد قبائلی علاقوں میں ایک نیا سیاسی نظام جڑ پکڑ رہا ہے۔ طالبان اور دہشت گردوں کی موجودگی میں نہ کوئی پولیٹکل ایجنٹ اور نہ کوئی ملک کو پوچھتا ہے۔ ان حالات میں فاٹا کا صوبہ کے پی میں انضمام اور پولیٹکل ایجنٹ کی جگہ ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی نہ صرف ایک دلچسپ ‘بلکہ کسی حد ناگزیر اقدام ہے۔