"DRA" (space) message & send to 7575

الیکشن 2018ئ: توقعات اور خدشات

اگلے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا دن یعنی 25 جولائی جوں جوں نزدیک آ رہا ہے‘ سیاسی پارٹیوں کی انتخابی سرگرمیاں بھی تیزی پکڑتی جا رہی ہیں۔ کاغذات نامزدگی کی چھان بین اور ان کے حق میں یا خلاف عذرداریوں کا فیصلہ آنے کے بعد‘ خصوصاً امیدواروں کی حتمی فہرست کے اعلان کے بعد‘ ان سرگرمیوں میں تیزی آ جائے گی۔ اب تک انتخابی شیڈول جس طرح کامیابی اور سکون سے آگے بڑھا ہے اور سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنے اپنے امیدواروں کا کچھ مسائل کے بعد حتمی چنائو کر لیا ہے‘ اس کے پیش نظر الیکشن کے وقت پر ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا‘ تاہم بعض حلقوں کی طرف سے اب بھی انتخابات کے بروقت ہونے پر غیر یقینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو ڈر ہے کہ بعض طاقتیں انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے انتخابی عمل کو مختلف طریقوں سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ اس لیے انہوں نے وارننگ دی ہے کہ اگر انتخابات آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور شفاف نہ ہوئے تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ شہباز شریف واحد سیاسی رہنما نہیں جنہوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے ‘اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ جب اس قسم کی بات ایک سینئر سیاستدان‘ جو ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا صدر بھی ہو‘ کے منہ سے نکلتی ہے تو اس کو سپورٹ کرنے کیلئے ٹھوس شواہد بھی موجود ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما‘ سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے ایک بیان میں جو کچھ کہا وہ بھی خاصا چونکا دینے والا ہے۔ اس بیان میں آئندہ انتخابات کے بارے میں صرف پیپلز پارٹی کے خدشات ہی شامل نہیں بلکہ اس سے شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے تحفظات اور خدشات کی تائید بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن افراد کو ٹکٹ دے کر پیپلز پارٹی نے سندھ سے امیدوار کے طور پر کھڑا کیا ہے‘ ان پر پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ مولا بخش چانڈیو نے یہ نہیں بتایا کہ پریشر ڈالنے والے کون ہیں اور کس پارٹی میں شمولیت کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں؟ البتہ انہوں نے یہ کہہ کر مسئلہ آسان کر دیا کہ لگتا ہے مسلم لیگ (ن) میں اکھاڑ پچھاڑ کے بعد اب پیپلز پارٹی کی باری آنے والی ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں میں مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت خصوصاً نواز شریف اور ان کے خاندان پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آفت نازل ہوتی تھی تو مولا بخش چانڈیو سب سے پہلے اسے مکافات عمل کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اصولی مؤقف اختیار کرنے کے بجائے‘ مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی مہم میں‘ اس نے شریف خاندان کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا اس کے پیش نظر مستقبل پر نظر رکھنے والے افراد پیپلز پارٹی کو خبردار کر رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کے بعد ان کی بھی باری آنے والی ہے۔ لیکن کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ جیسا کہ مولانا بخش چانڈیو نے اپنے بیان میں کیا ہے 'یہ باری اتنی جلدی آ جائے گی‘۔ مولا بخش چانڈیو کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ان سے بھی زیادہ چونکا دینے والا بیان دیا ہے۔ سکھر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں اب بھی ایسے عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ انتخابات وقت پر ہوں۔ اس قسم کے خدشات پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی ظاہر کر چکے ہیں۔
جون کے اوائل میں انہوں نے ایک بیان میں کہا تھاکہ 2018ء کے انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں جان بوجھ کر غیر یقینی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے بلوچستان اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قرارداد کا حوالہ بھی دیا‘ جس میں انتخابات کو ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ رضا ربانی انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں اتنے متفکر تھے کہ انہوں نے تجویز پیش کی کہ سینیٹ کے اس وقت کے اجلاس کو انتخابات کے منعقد ہونے تک جاری رکھا جائے۔ رضا ربانی نے خبردار کیا کہ ملک مزید سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اگر جمہوری سیاسی عمل کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے تو وفاق کی جڑیںکمزور پڑ جائیں گی۔ جاوید ہاشمی پاکستان کے سینئر ہی نہیں بلکہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں‘ جو کہتے ہیں‘ پوری ذمہ داری سے کہتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ طاقتور سے طاقتور حکمران سے بھی مرعوب نہیں ہوتے اور سیاست میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے احتراز کرتے ہیں۔ 12 جون کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور ان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے اُن سیاستدانوں کا نام نہیں لیا جنہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے یا پریشر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جاوید ہاشمی کا اشارہ کس طرف ہے؟ اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن گزشتہ تقریباً ایک سال سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت بعض 'خفیہ طاقتوں‘ پر الزام عائد کرتی چلی آ رہی ہے کہ ان کے سابق اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی پر پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی نے خود بیانات دیئے ہیں کہ انہیں 'نہ معلوم نمبر‘ سے کالیں آتی ہیں جن میں انہیں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا مشورہ دیا جاتا ہے‘ بصورت دیگر ان پر نیب میں مقدمات چلانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ گزشتہ سال 28 جولائی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں کو امید تھی کہ اس کا تیزی سے شیرازہ بکھرنا شروع ہو جائے گا‘ لیکن ان حلقوں کی توقع کے برعکس مسلم لیگ (ن) اپنی صفوں میں نہ صرف اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب رہی بلکہ مختلف سروے کے مطابق ان کی پنجاب میں مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے؛ تاہم 31 مئی کو اسمبلیاں تحلیل اور مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرنے والے سیاستدانوں اور سابق اراکین اسمبلی کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان سابق اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد نے تحریک انصاف کا رخ کیا ہے‘ جہاں انہیں آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حصہ لینے کیلئے ٹکٹوں سے بھی نواز ا گیا ہے۔ مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑنے والوں میں بعض پارٹی کے پرانے اور مضبوط رہنما‘ جنہیں الیکٹ ایبلز بھی کہا جا رہا ہے‘ شامل ہیں۔ ان کے رخصت ہونے سے مسلم لیگ (ن) یقینا کمزور ہوئی ہے‘ خصوصاً جنوبی پنجاب کے اضلاع جھنگ‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں پارٹی کی پوزیشن نازک ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ انتخابات میں اسے ہرانے کیلئے کیا جا رہا ہے‘ جسے وہ 'پری پول دھاندلی‘ یا 'پولیٹیکل انجینئرنگ‘ بھی قرار دے دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بہت سی معذوریوں کے ساتھ حصہ لے گی‘ ان میں مقدمات‘ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور پھر تاحیات نا اہلی‘ بیگم کلثوم نواز کی علالت اور سب سے بڑھ کر احتساب عدالت ہی چلنے والے مقدمات میں سزا کا امکان شامل ہے۔ اس کے باوجود پارٹی کا مورال ڈائون نہیں ہوا‘ اور وہ انتخابات میں پوری تیاری اور سنجیدگی سے حصہ لینے پر آمادہ ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ مقدمات کا جو بھی نتیجہ ہو‘ پارٹی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔جاوید ہاشمی کو بھی بیان ہے کہ ہمارے لوگوں پر پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے دباؤ کے باوجود انتخابات میں پورے جوش و جذبے سے شرکت کریں گے۔ خورشید شاہ کو بھی یقین ہے کہ مختلف عناصر کی طرف سے انتخابات ملتوی کرانے کی سازشوں کے باوجود انتخابات وقت پر ہی ہوں گے۔ الیکشن کمیشن بھی جس مستعدی نے کام کر رہا ہے‘ اس کے پیش نظر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقت پرہی ہوں گے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ جہاں تک انتخابات کے بروقت ہونے کا تعلق ہے‘ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے پیش کردہ خدشات بے بنیاد ثابت ہوں گے‘ لیکن جہاں تک انتخابات اور نتائج کا تعلق ہے‘ اس کے بارے میں ڈر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ سب سے زیادہ معرکہ خیز اور متنازعہ ثابت ہوں گے‘ کیونکہ اس سے بہت سے فریقوں کے اہم مفادات وابستہ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں