"DRA" (space) message & send to 7575

بے کیف انتخابات

اکثر لوگوں کو شکایت ہے کہ انتخابات سر پر آ پہنچے ہیں‘ مگر انتخابی رونق اور ہنگامہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ دیگر الفاظ میں پولنگ ڈے میں بمشکل تین ہفتے رہ گئے ہیں لیکن نہ تو نعرے لگاتے ہوئے سیاسی کارکنوں کے جلوس نظر آتے ہیں اور نہ ہی امیدوار اپنے حامیوں کی ٹولیوں کے ہمراہ اپنے اپنے حلقے کے گلی کوچوں میں کارنر میٹنگ یا ڈور ٹو ڈور مہم چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ حالانکہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں خصوصاً انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے قریبی حلقوں کے مطابق‘ امیدواروں کی حتمی فہرست آنے کے بعد انتخابی سرگرمیاں نمایاں ہوں گی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی کا تو دعویٰ ہے کہ آئندہ دو تین ہفتوں میں پارٹی چیئرمین عمران خان، پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کو انتہائی بلندیوں تک لے جائیں گے۔
پی ٹی آئی نے گزشتہ اتوار یعنی 24 جون کو میانوالی میں ایک جلسہ منعقد کر کے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کی حکمتِ عملی میں پبلک جلسوں کو نمایاں اہمیت حاصل ہو گی‘ اور چونکہ پارٹی چیئرمین کئی مختلف حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں‘ اس لیے میانوالی کے بعد اسلام آباد، لاہور، کراچی اور کے پی میں بڑے جلسوں کا انعقاد کر کے پی ٹی آئی کے وہ پارٹی کی انتخابی مہم میں جان ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن میانوالی کے جلسے میں حاضرین کی توقع سے کم تعداد کے پیشِ نظر پی ٹی آئی کے لیے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پر غور لازمی ہو جائے گا۔ یعنی صرف بڑے بڑے جلسوں سے کام نہیں چلے گا۔ تحریک چلانے کیلئے تو بڑے بڑے جلسے اور جلوس مفید ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ مقصد مخالف فریق کو عددی اکثریت سے مرعوب کرنا ہوتا ہے‘ لیکن ووٹ پکا کرنا اس سے مختلف ہے۔ جلسوں میں حاضرین کی بہت زیادہ موجودگی اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ سب یا ان میں سے اکثریت آپ کی ووٹر ہو گی۔ ووٹر کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے مختلف طریقے اور حکمت عملیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان میں کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور کنویسنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ووٹر کو اگر کوئی چیز کسی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرتی ہے تو وہ پارٹی کا نعرہ یعنی بیانیہ ہے۔ جیسے 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ''روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا بیانیہ پیش کر کے مغربی پاکستان خصوصاً سندھ اور پنجاب میں عوام کی بھاری اکثریت کے دل جیت لیے تھے۔ بد قسمتی سے ان انتخابات میں کوئی پارٹی بیانیہ نظر نہیں آتا۔ اگر تھا تو پس منظر میں چلا گیا ہے اور لوگوں کے ذہنوں سے آہستہ آہستہ محو ہوتا جا رہا ہے۔ مثلاً پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 2014ء میں انتخابی دھاندلیوں کا نعرہ لگایا‘ لیکن جب اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر مشتمل ٹربیونل نے ان کے الزام کو غلط ثابت کیا تو اس نعرے میں جان نہ رہی۔ پانامہ لیکس سامنے آئیں تو نواز شریف کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے بیانیہ کا سہارا لیا گیا‘ لیکن وزارت عظمیٰ سے نواز شریف کی علیحدگی اور تاحیات نا اہلی کے بعد اس بیانیہ میں کوئی اٹریکشن نہیں رہی‘ کیونکہ نواز شریف کی معزولی اور نا اہلیت کرپشن کے کسی الزام کے ثبوت کی بنیاد پر عمل میں نہیں آئی‘ بلکہ اقامہ کی بنیاد پر‘ جو کہ ملک کے سرکردہ قانونی ماہرین کی رائے میں ایک کمزور بنیاد ہے۔ اس لیے عمران خان کا کرپشن کا بیانیہ تو پِٹ چکا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ پی ٹی آئی کا کرپشن کے الزامات پر مبنی بیانیہ ووٹرز کی بڑی تعداد کو متاثر کر سکے‘ کیونکہ اب یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ یہ نعرہ سیاسی مقصد کے لئے لگایا گیا تھا۔ اصل ٹارگٹ کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنا تھا۔ اس دفعہ کے انتخابات کے موقعہ پر بظاہر خاموشی اور بے رونقی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا کسی اور بڑی سیاسی جماعت نے ابھی تک پارٹی مینی فیسٹو جاری نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کچھ عرصہ پیشتر اعلان کیا تھا کہ ان کی پارٹی کا مینی فیسٹو چند روز تک آ جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے مینی فیسٹو میں ایشوز کی بجائے سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کی کارکردگی پر تنقید زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ تمام ادارے اپنی مقرر کردہ آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات صرف دبی زبان میں کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب کس طرح اپنے مینی فیسٹو کو عوام کے پسندیدہ نعروں میں ڈھالتی ہے۔ انتخابی ماحول کی بظاہر ویرانی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابات حالات و واقعات کے ایک ایسے سلسلے کے بعد منعقد ہو رہے ہیں‘ جو اس سے قبل پاکستان کی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو ایک نمایاں اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی‘ اور جس کی بنیاد پر حکومت پر اس کی گرفت مضبوط ہونی چاہئے تھی‘ اندرونی اور نہ بیرونی محاذ پر کوئی بڑی تبدیلی لا سکی‘ حالانکہ ان دونوں محاذوں پر پاکستان کو شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔ حکومت سازی کے صرف ایک برس کے بعد سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دھرنوں اور لانگ مارچوں کے ایک ایسے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا‘ جس نے ان کی حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اگرچہ کراچی میں رینجرز کی مدد سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کامیاب آپریشن اور پاک چائنہ کاریڈور کے تحت انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں منصوبوں پر عمل درآمد سابقہ حکومت کی اہم کامیابیاں ہیں۔ ان کامیابیوں کی وجہ سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوا ہے اور بجلی کی پیداوار میں اضافے سے لوڈ شیڈنگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر سیاسی محاذ پر حکومت کو یکے بعد دیگرے کئی سیٹ بیک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس وقت جبکہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے اور پارٹیوں کے امیدوار لنگر لنگوٹ کس کر انتخابی اکھاڑے میں کود چکے ہیں‘ گزشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے لیڈر اور روح رواں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ تاحیات نا اہل قرار دے چکی ہے۔ اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری نے ان کی پریشانی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نیب ریفرنسز پر احتساب عدالت کا فیصلہ ان کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔ باقی ماندہ پارٹی قیادت بھی دورِ ابتلا سے گزر رہی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو الیکشن ٹربیونل نے تا حیات نا اہل قرار دیتے وقت جن الفاظ میں فیصلہ تحریر کیا‘ وہ ان کی ذات اور پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے۔ راولپنڈی ریجن میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار قمرالاسلام کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری نے پارٹی کے حوصلوں کو اور بھی پست کر دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پارٹی کے صدر اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو نیب کے سامنے پیش ہونے کے لیے نوٹس اور پھر پولیس کے ذریعے نہ صرف اس نوٹس کی تعمیل بلکہ نیب میں پیشی ایسے واقعات ہیں جن کا ایک سال قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان خیالات میں انتخابات کی رونقیں اور ہنگامہ آرائیاں کِسے یاد آتی ہیں۔ خصوصاً جب سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو مختلف طریقوں سے انتخابی معرکے سے باہر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں