پاکستان کے ووٹرز آج فیصلہ کریں گے کہ ان میں سے اکثریت کے نزدیک کون سی سیاسی پارٹی اگلے پانچ برسوں کے لئے عنانِ حکومت سنبھالنے کی حق دار ہے۔ گزشتہ تقریباً دو ماہ کے دوران میں تمام سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں نے ووٹرز کی حمایت جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پارٹی رہنمائوں نے مختلف حلقوں کے طوفانی دورے کئے اور درجنوں جلسے منعقد کئے اور ریلیاں نکالیں۔ اگرچہ اس دفعہ آزاد امیدواروں کی ریکارڈ توڑ تعداد انتخابات میں حصہ لے رہی ہے؛ تاہم انتخابی مہم پر ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی چھائی ہوئی ہیں۔ ان تینوں پارٹیوں کا الگ الگ بیانیہ ہے اور انہوں نے ایک دوسرے سے الگ منشور بھی پیش کئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ان کے بیانیے کیا تھے اور قوم میں کہاں تک ان کی پذیرائی کا امکان ہو سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ صرف ان حالات و مشکلات اور مسائل کی پیداوار نہیں‘ جن سے پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد حال ہی میں گزرے ہیں مثلاً پانامہ لیکس کی بنیاد پر مقدمات‘ اقامہ کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور پھر آئین کی دفعہ 63-F(1) کے تحت تا حیات نا اہلی اور اس کے بعد اڈیالہ جیل میں قید‘ بلکہ اس بیانیے میں پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ کے تجربے کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح سویلین اور منتخب وزرائے اعظم کو اقتدار سے الگ کیا جاتا رہا اور عوام نے انہیں جو مینڈیٹ دیا تھا اسے پورا کرنے کے لئے موقعہ نہیں دیا گیا یعنی پوری طرح کارکردگی دکھانے کا موقعہ ہی فراہم نہ کیا گیا۔ چونکہ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل‘ ایک منتخب اور پاپولر وزیر اعظم کو مبینہ طور پر جھوٹے مقدمہ کے تحت پھانسی پر لٹکانے‘ اور دوسرے کو کسی جواز کے بغیر اقتدار سے الگ کر کے جلا وطن کرنے جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے‘ اس لئے مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کو عوام میں نمایاں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اس کا ثبوت نواز شریف اور مریم نواز کے پنجاب میں بڑے بڑے جلسے ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی حریف کچھ بھی کہیں‘ عام تاثر یہ ہے کہ اگر انتخابات میں ووٹرز کو بغیر کسی دبائو‘ ڈر‘ خوف یا مداخلت کے ووٹ ڈالنے کا موقعہ دیا گیا تو (ن) لیگ سب کو پیچھے چھوڑ جائے گی۔ خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بدستور مضبوط ہے اور نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں ڈالنے‘ امیدواروں کو نا اہل قرار دینے اور لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کرنے کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بدستور مضبوط ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی مبینہ کرپشن کے الزامات پر مبنی ہے۔ میرے خیال میں چونکہ مقابلے کا اصل میدان ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے‘ اس لئے کرپشن کے الزامات پر مبنی حملوں کا نشانہ نواز شریف اور اس کا خاندان ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ کرپشن کے خلاف اس نے 25 برس قبل جھنڈا اٹھایا تھا اور آج تک اس نے اس جھنڈے کو بلند کئے رکھا ہے۔ یہ دعویٰ کافی حد تک درست ہے۔ اس کی بنیاد پر عمران خان کو کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں تین الزامات ایسے ہیں جن کو ثابت کرنے کے لئے کسی ٹھوس شہادت کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ لوگ بغیر کسی ثبوت کے ان پر یقین لے آتے ہیں اور وہ ہیں کرپشن‘ انڈین ایجنٹ اور اسلام دشمن۔ نواز شریف پر عمران خان کھربوں روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام لگاتے ہیں‘ حالانکہ پانامہ لیکس کیس میں نواز شریف کا نام نہیں تھا اور لندن کے ایون فیلڈ فلیٹس کے مقدمے میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے صاف بری کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب نے بھی احتساب عدالت کے فیصلے کے اس حصے کو تسلیم کر لیا ہے‘ جس کا ثبوت یہ ہے کہ قومی احتساب کے ادارے نے نواز شریف کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے بریت کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان حالات میں عمران خان کے کرپشن کے الزامات پر مبنی بیانیہ کمزور ہو جاتا ہے‘ حالانکہ کرپشن پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کے تقریباً ہر ملک کا ہے‘ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ پاکستان میں کرپشن کو مخلص اور سنجیدہ کوشش کے ذریعے ختم کرنے کی بجائے اس ایشو کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ احتساب کے ادارے مختلف حکومتوں کے ادوار میں بنائے گئے‘ لیکن ان سے کرپشن کے خاتمے کا کام لینے کے بجائے حریف رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا کام لیا جاتا رہا تاکہ جو جماعت برسر اقتدار ہے‘ اسے کھل کھیلنے کا موقع ملے اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ بالکل اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ جب بیلٹ باکس کھلیں گے اور ووٹ کی گنتی ہو گی تو ان تازہ انتخابات کے بارے میں دو اور مفروضے غلط ثابت ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان انتخابات میں آزاد امیدوار ریکارڈ نمبر میں کامیاب ہوں گے کیونکہ ان کی ریکارڈ تعداد انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ پاکستان کے ہر انتخابات میں کچھ امیدوار آزاد حیثیت میں حصہ لیتے رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں‘ لیکن اس بار ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ اس لئے اگر ان انتخابات میں بھی آزاد امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں تو نئی بات نہ ہو گی‘ لیکن یہ دعویٰ کہ اس دفعہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی ریکارڈ تعداد کامیاب ہو گی اور انتخابات کے بعد حکومت سازی میں ان کا کردار فیصلہ کن ہو گا، درست ثابت نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ دس عام انتخابات کے نتائج کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹرز عام طور پر پارٹی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق اس دفعہ بھی لوگ زیادہ تر پارٹی کی بنیاد پر ہی ووٹ دیں گے۔ اسی طرح گزشتہ تقریباً آٹھ‘ نو ماہ سے یہ دعویٰ شدت سے پیش کیا جا رہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے تو انتخابات سے کافی عرصہ پہلے یہ پیش گوئی کر دی تھی‘ بلکہ انہوں نے عمران سے اپیل کی تھی کہ وہ آئندہ قومی اسمبلی میں اپنے خاص اراکین کی تعداد بڑھانے کیلئے دس سے پندرہ نشستوں پر مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کھڑے نہ کریں۔ ان کا یہ مشورہ درست تھا یا نہیں اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ تقریباً ایک سال قبل لاہور کے علاقہ این اے 120 کی ضمنی انتخاب اور اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں دو اور ضمنی انتخابات میں ''تحریک لبیک پاکستان‘‘ کے امیدواروں کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں سے بھی اس تاثر کو تقویت ملی کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شیخ رشید اور عمران خان کو امید تھی کہ ان ووٹوں کو اپنی طرف کھینچا جا سکتا ہے۔ لیکن انتخابات کے آخری دنوں میں پیدا ہونے والی صورتحال سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی حمایت سے محروم ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کم نہیں ہوا اور مذہبی جماعتوں کا ووٹر نہ تو مسلم لیگ (ن) کو ملے گا اور نہ تحریک انصاف کی طرف مائل ہو گا‘ کیونکہ انہیں اپنی پارٹی کی صورت میں ایک علیحدہ پلیٹ فارم میسر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مذہبی جماعتوں کے 200 سے 250 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اور ان کی پارٹیوں کی جانب سے بھرپور انتخابی مہم بھی چلائی گئی‘ لیکن میرے خیال میں ضمنی انتخابات کے برعکس یہ دونوں پارٹیاں انتخابات کے حتمی نتائج میں کوئی بڑی اور ڈرامائی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی‘ کیونکہ انتخابات سے قبل آخری دنوں میں ایسے مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کا ملک کے بنیادی مفادات سے تعلق ہے‘ اس کی وجہ سے مذہب کے نام پر ووٹ کی اہمیت میں جو اضافہ نظر آ رہا تھا، وہ کسی حد تک بیک گرائونڈ ہی چلا گیا ہے۔