پاکستان کی نئی حکومت کو خارجہ محاذ پر جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور دوری غالباً سب سے زیادہ اہم ثابت ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 9/11، خصوصاً افغانستان میں امریکہ، نیٹو افواج کی آمد کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہت گہرائی اور وسعت آ گئی تھی۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنا اہم حلیف تسلیم کر کے اسے سٹریٹجک پارٹنر اور نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے رکھا تھا۔ اس حیثیت میں پاکستان کو اقتصادی شعبے میں ہی نہیں بلکہ دفاعی شعبے میں بھی متعدد رعایات حاصل ہو گئی تھیں۔ کیری لوگر بِل، کولیشن سپورٹ فنڈز اور دو طرفہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ جیسے اہم فریم ورک کے تحت پاکستان کو نہ صرف فوجی، بلکہ تعلیم، صحت، توانائی، زراعت، واٹر مینجمنٹ، صنعت، ٹیکنالوجی، بہبود آبادی، لائیو سٹاک اور ماحولیات کے شعبوں میں بھی گراں قدر تکنیکی اور مالی امداد حاصل ہو رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ پاکستان کیلئے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ ہماری سب سے بڑی صنعت اور قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا تمام تر دار و مدار امریکی منڈی پر ہے۔ اگر امریکہ آج ہماری برآمدات کو محدود کر کے پاکستان سے آنے والی ٹیکسٹائل مصنوعات کی درآمد پر دی گئی رعایات کو واپس لے لے تو ہماری سب سے بڑی صنعت ہی نہیں بلکہ ہماری قومی معیشت بھی سخت بحران کا شکار ہو جائے گی۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے بگڑتے ہوئے تعلقات کو مزید بگڑنے سے نہ روکا گیا، تو اس قسم کا بحران ناگزیر ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے امریکہ میں حکومت تبدیل ہوئی ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے، امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات متواتر تنزلی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے امریکہ کے عسکری اداروں میں پاکستانی فوجی افسروں کی تربیت کے پروگرام کو ختم کرنا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ کی بری، بحری اور ہوائی افواج کے تربیتی اداروں میں دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے بھی درجنوں فوجی آفیسر تربیت حاصل کرتے تھے۔ جس پروگرام کے تحت پاکستانی افسر امریکہ میں عسکری تربیت حاصل کرتے تھے‘ اس کا نام یو ایس انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس پروگرام کے تحت پاکستانی فوجی افسروں کی تربیت کا سلسلہ بند کر دیا ہے؛ چنانچہ اس سال پاکستان کی افواج کا کوئی بھی افسر اس پروگرام کے تحت امریکہ نہیں جا سکے گا‘ اور پاکستان کیلئے مختص کی گئی 66 سیٹیں کسی اور ملک کو دے دی جائیںگی‘ یا ختم کر دی جائیں گی۔
امریکی حکومت کے اس فیصلے سے نہ صرف پاکستانی عسکری اور سفارتی حلقے حیرانی اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ خود امریکہ میں بھی اس اقدام کو غلط، نا عاقبت اندیشانہ اور امریکہ کے طویل المیعاد مفادات کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے ایک سابق خصوصی نمائندہ برائے پاکستان اور افغانستان ڈان فیلڈ مین نے اس اقدام کو دور اندیشی سے خالی سوچ پر مبنی فیصلہ قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی ڈیفنس سیکرٹری جم میٹس اس پروگرام کو ختم کرنے کے خلاف تھے‘ اور انہوں نے اسے جاری رکھنے کے حق میں دلائل دیئے تھے۔ پاکستان کی سینیٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سید مشاہد حسین نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو غلط اور دونوں ملکوں کے مفادات کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس سال کے آغاز سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ دبائو میں لانے کیلئے جو منصوبے تیار کر رکھے ہیں‘ انہیں وہ ایک ایک کرکے بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کی انتظامیہ پاکستان کو امریکہ سے ملنے والی سالانہ امداد میں نمایاں کمی کر چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب پاکستان کو ہر سال امریکہ سے دو بلین ڈالر امداد ملتی تھی‘ لیکن چند روز قبل امریکہ نے اپنے آئندہ بجٹ میں پاکستان کو ملنے والی امداد کم کر کے 125 ملین ڈالر کر دی۔ یہی نہیں بلکہ سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے حال ہی میں ایک بیان میں آئی ایم ایف کو پاکستان کیلئے بیل آئوٹ پیکیج دینے سے بھی منع کر دیا۔ اس قسم کی ایک تجویز امریکی سینیٹرز کے ایک گروپ کی طرف سے بھی پیش کی گئی ہے کہ وہ ممالک‘ جنہوں نے چین کے ''بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کے تحت قرضہ جات لے رکھے ہیں‘ انہیں آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے نہ دیئے جائیں۔ ان میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا اور جبوتی بھی شامل ہیں۔ مگر ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر رکن نے پاکستان کا نام لیتے ہوئے آئی ایم ایف کو ایسے موقعہ پر پیکیج دینے سے منع کیا ہے جب پاکستان شدید مالی بحران سے دوچار ہے اور جس سے باہر نکلنے کیلئے پاکستان دیگر آپشنز (Options) کے علاوہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایک سال قبل ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں جس امریکی پالیسی اور حکمت عملی کا اعلان کیا تھا‘ اس کو من و عن قبول کرنے کیلئے امریکہ پاکستان پر برابر دبائو جاری رکھے گا۔ چونکہ اس پالیسی اور حکمت عملی کے بعض پہلوئوں سے پاکستان اتفاق نہیں کرتا۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
کچھ حلقوں‘ جن میں سابق امریکی حکام بھی شامل ہیں‘ نے ٹرمپ انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ ان اقدامات سے پاکستان، چین اور روس کے اور بھی قریب چلا جائے گا‘ اور یہ امریکی مفادات کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ ان حلقوں کے اندیشے درست ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق امریکہ کی بجائے پاکستانی فوجی افسران اب روس کی ملٹری اکیڈمیوں اور اداروں میں فوجی تربیت حاصل کریں گے۔ امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور روس نے حال ہی میں ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں‘ جس کے تحت پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ارکان روس میں تربیت حاصل کریں گے۔ امریکی اخبار کے مطابق یہ معاہدہ حال ہی میں روسی نائب وزیر دفاع کرنل جنرل الیگزینڈر فومین کے دورۂ پاکستان کے دوران طے پایا تھا۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس سے نا صرف پاک روس تعلقات میں ایک نئے موڑ کا پتہ چلتا ہے، بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان امریکی دبائو کو قبول کرنے کی بجائے اپنی ضروریات کیلئے دوسرے ملکوں سے رجوع کرے گا۔ چین کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات پہلے ہی کافی گہرے ہیں۔ پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے زیر استعمال جدید ترین ہتھیاروں کا منبع اب چین ہی ہے۔ اب روس کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات اور تعاون کی بنیاد رکھ دی گئی ہے؛ تاہم پاکستان کی ضروریات صرف دفاعی نوعیت کی نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کو در پیش سب سے بڑا چیلنج معیشت کی زبوں حالی ہے جسے سدھارنے کیلئے چین اور روس ایک خاص حد تک ہی پاکستان کے کام آ سکتے ہیں۔ عالمی معیشت میں امریکہ کو جو پوزیشن حاصل ہے اور پھر ایک طویل عرصے سے پاکستانی معیشت جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر انحصار کرتی آئی ہے‘ اس کے پیش نظر روس اور چین امریکہ کی جگہ نہیں لے سکتے۔ دیگر الفاظ میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات بلکہ تعاون کا برقرار رہنا صرف امریکہ کے ہی مفاد میں نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ نئی حکومت کو بھی اس کا احساس ہے۔ خود روس اور چین نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکہ سے ناتہ توڑ کر ان کے کیمپ میں آ بیٹھے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں مشکلات اور الجھنیں موجود ہیں‘ لیکن ڈپلومیسی کے ذریعے ان کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے نہ صرف امریکہ کو اپنی اپروچ میں لچک پیدا کرنا پڑے گا بلکہ جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی میں پاکستان کو اپنے مثبت کردار کی یقین دہانی بھی کرانا پڑے گی۔ اگر امریکہ اور پاکستان باہمی تعاون کے ذریعے افغانستان میں جنگ ختم کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جنوبی ایشیا میں تنائو اور کشیدگی کی جگہ دوستی اور تعاون کی فضا قائم کرتے ہیں تو ہر طرف سے اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔