امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ان کے وفد کی اسلام آباد آمد اور پاکستانی حکام جن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کے بعد ہر جانب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سوال کا جواب ہاں میں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں سرد مہری ختم ہو گئی ہے۔ پہلے تعلقات تعطل کا شکار تھے۔ مگر اب یہ تعطل ختم ہو گیا ہے۔ امریکہ کے جس مطالبے سے پاکستان کو چڑ تھی یعنی ''ڈومور‘‘ ۔امریکہ کے وزیر خارجہ نے پاکستان میں آ کر اس مطالبے کو نہیں دہرایا۔ بلکہ آگے بڑھنے کی بات کی ہے۔ لیکن واشنگٹن میں یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے، اس کے آپریشنل پارٹ میں وہی بات کی گئی ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، یعنی اعلامیہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو ایک دفعہ پھر کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اور مستقل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سال جنوری میں جب ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقوم کی ترسیل معطل کرنے کا فیصلہ کیا تو یہی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ گزشتہ ہفتے پومپیو کے اسلام آباد میں سٹاپ اوور سے پہلے امریکی حکومت نے جب 30 ملین ڈالر کی اس معطل شدہ رقم کو مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت بھی یہی الفاظ استعمال کئے گئے تھے، کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ''فیصلہ کن اور نتیجہ خیز‘‘ اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی پاکستانی وزیر اعظم سے جو ٹیلیفون پر بات ہوئی، اس میں بھی اول لذکر نے پاکستان میں سرگرم ''دہشت گرد گروپ ‘‘ کی سرگرمیوں کو ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن اس وقت بھی پاکستان کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔
پومپیو کی آمد اور پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے باہمی بات چیت پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا نہ ہی اکٹھے پریس کانفرنس کی۔ بلکہ دونوں ملکوں نے الگ الگ اعلامیے جاری کیے۔ ان بیانات میں ٹون اور مندرجات بھی ایک جیسے نہیں۔ اس ملاقات کے نتیجے کو اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات وہیں ہیں جہاں پومپیو عمران خان کی ملاقات سے پہلے تھے۔ دونوں طرف سے توقعات اور امیدوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک کسی ٹھوس پیش رفت کا تعلق ہے، اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ لیکن ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر شکوک، شبہات اور بدگمانی کی فضا ایک عرصہ سے چھائی چلی آ رہی ہے، اور ایک آدھ ملاقات سے اس کے خاتمہ کی توقع نہیں کی جا سکتی، خصوصاً جب کہ دونوں کے مؤقف میں بنیادی فرق ہے۔ 9/11 کے بعد اگرچہ مشرف نے پاکستان کا تمام وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ کی کارروائی ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاکستانی عوام میں کبھی پاپولر نہیں رہی۔ اس کا سب سے زیادہ برملا طور پر اظہار ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن لیڈر تھے تو خود کرتے رہے ہیں۔ ان کا تو یہ مؤقف رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، یہ امریکہ کی جنگ ہے، اور امریکہ نے اپنے مفاد میں یہ جنگ پاکستان کے سر تھوپی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں بارہا کہا کہ اگر وہ وزیراعظم بنے تو پاکستان کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیں گے۔ اسی طرح امریکہ کے کہنے پر پاکستان، افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف سرگرم افغان طالبان کے خلاف کیسے طاقت استعمال کر سکتا ہے؟ کیونکہ ان کی طرف سے پاکستان کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایاگیا۔ یہی سوچ، اور جذبات پاکستانی قوم کے ہیں۔ اس لئے امریکہ جتنا مرضی دبائو ڈالے، پاکستان افغان طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا، کیونکہ اس قسم کی کارروائی کو پاکستانی عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر امریکہ کی موجودہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ گزشتہ سال اگست میں اس نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے جس حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، پاکستان اسے من و عن قبول کر لے گا اور اس کے تحت افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرلے گا، تو یہ اس کی خام خیالی ہے، کیونکہ اس حکمت عملی میں امریکہ نے جنوبی ایشیا میں بھارت کو ایک اہم کردار ادا کرنے کی دعوت دی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی موجودہ کیفیت کی روشنی میں اسلام آباد کیلئے مشکل ہے کہ وہ واشنگٹن کی ایک ایسی حکمت عملی کے مطابق اپنی علاقائی پالیسیوں کو ڈھالے جس میں بھارت کو ایک بالادست طاقت کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کا موقع دیا جا رہا ہو۔ اسی وجہ سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہئے کہ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر امن کے بغیر مغربی سرحدوں پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو علاقہ کی ایک بڑی فوجی طاقت بنانے کی پالیسی ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان قریبی تعاون کی بنیاد 2005 ء میں سابق صدر بش کے دور میں رکھی گئی تھی۔ 2006ء میں سول نیوکلیئر ڈیل پر معاہدہ اس کا سب سے اہم سمبل ہے۔ اوباما کے عہد میں ان تعلقات کو مزید گہراا ور وسیع کیا گیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اوباما کے دور میں ہی بھارت کو امریکہ نے ایک اہم سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ اور بھارت کے درمیان تعاون کو اور بھی وسیع کر دیا ہے۔ بھارت اب صرف دو طرفہ بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی امریکہ کا ہمنوا اور سٹریٹجک اتحادی بن چکا ہے۔ امریکہ نے بھارت کے کردار کو اب صرف جنوبی ایشیا تک ہی نہیں بلکہ ایشیائی بحرالکاہل تک پھیلا دیا ہے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور چیئر مین جوائنٹ سٹاف کمیٹی کے چیئر مین جنرل ڈن فورڈ کے دورہ بھارت سے یہ تعلقات اور بھی گہرے ہو جائیں گے۔ پاکستان کیلئے تشویش کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ بحرالکاہل اور بحیر ہند کے اردگرد واقع علاقوں میں سلامتی، امن اور استحکام کے بارے میں بھارتی بیانیہ کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لیا ہے اور اس کے تحت پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ نہ صرف افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ میں تعاون فراہم کرے بلکہ اپنے ہاں ایسے گروپ اور عناصر کی بھی سرکوبی کرے جو امریکہ کے دعوے کے مطابق بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ 4 ستمبر کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور چیئر مین جوائنٹ سٹاف جنرل ڈن فورڈ کی آمد اور پاکستانی رہنمائوں سے ملاقات کی اصل اہمیت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے حکام کے درمیان اعلیٰ سطح پر یہ رابطہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بلکہ تعطل کے ایک طویل دور کے بعد قائم ہوا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ملاقات ایک مثبت نوٹ پر اختتام پذیر ہوئی ہے۔ فریقین نے مستقبل میں باہمی تعلقات کے بارے میں نہ صرف خوشگوار تبدیلی کی خواہش ظاہر کی ہے بلکہ اس کی امید کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں اپنی سابقہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لے گا۔پاکستان کی طرف سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس کے تحت امریکہ نے نہ صرف علاقائی امن اور سلامتی کی خاطر پاکستان کے تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے بلکہ اس کی امید بھی ظاہر کی ہے۔ لیکن امریکی اعلامیہ کے مطابق اس تعاون کی جو شکل صدر ٹرمپ کے ذہن میں ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس لئے امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے پاکستان کو کئی ایسے اقدامات بھی کرنا پڑیں گے جنہیں اس سے قبل کرنے سے پاکستان معذوری کا اظہار کرتا آ رہا ہے۔ مثلاً افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے پر دبائو یا پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی، امید ہے کہ وزیر خارجہ کے دورہ ،اقوام متحدہ ،جس کے دوران وہ واشنگٹن میں امریکی حکام سے بھی ملاقات کریں گے ، تب پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کی تصویر اور بھی واضح ہو جائے گی۔