"DRA" (space) message & send to 7575

پاک بھارت وزرائے خارجہ ملاقات منسوخ کیوں کی گئی؟

پچھلے ہفتے بھارتی حکومت نے پاکستان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ماہِ رواں میں نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا اعلان کیا مگر 24 گھنٹے کے اندر اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے ملاقات کی منسوخی کا اعلان کر دیا۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام پر پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ دُنیا بھر میں حیرانی اور مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ دونوں ملکوں میں یہ رابطہ کئی برسوں کے بعد ہونا تھا، اور اُمید کی جا رہی تھی کہ یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی کمی کا باعث بنے گی اور اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہو جائے گا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ 2004ء میں شروع کیا گیا تھا۔ لیکن 2008ء میں چار رائونڈز کے بعد نومبر 2008ء میں ممبئی کے حملوں کے باعث معطل کر دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں اِسے دوبارہ شروع کیا گیا تھا، لیکن جولائی 2014ء میں نو منتخب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کو منسوخ کر کے مذاکرات کے اس سلسلے پر کاری ضرب لگائی تھی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں اِسے پھر بحال کرنے کی کوشش کی گئی، مگر جنوری 2016ء میں پٹھانکوٹ اور اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے مقام پر بھارتی فوجی اڈوں پر حملوں کی وجہ سے مذاکرات کا پروگرام پھر منسوخ کر دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے ان حملوں کی ذمہ داری جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مجاہدین پر ڈالتے ہوئے پاکستان سے ان گروپوں کے خلاف سخت اقدام کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ اعلان کیا کہ جب تک حکومت پاکستان 2008ء کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افرادکے ساتھ پٹھانکوٹ اور اُڑی پر حملہ کرنے والوں کے خلاف اقدام نہیں کرتی اور بھارتی دعوے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی مدد بند نہیں کرتی، پاکستان سے مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔چنانچہ گزشتہ تقریباً 6 برسوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں نہ صرف نارمل کمیونیکیشن کے چینل بند پڑے ہیں، بلکہ باہمی کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ اس کا سب سے نمایاں اظہار کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ ہے۔ جس میں دن بدن شدت آ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں طرف جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں جہاں لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب رہنے والے کشمیری نالاں ہیں، وہاں بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ، روس، چین اور یورپی یونین میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے، کیونکہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ان کے سابقہ تعلقات کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، دُنیا ڈرتی ہے کہ اگر کشیدگی کا یہی عالم رہا، اور انہوں نے کشیدگی کم کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات نہ کئے تو یہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے کسی بڑے تصادم پر منتج ہو سکتی ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ نہ صرف پورے خطے کو ناقابل بیان تباہی سے دو چار کر سکتی ہے، بلکہ پوری دُنیا کا امن خاکستر ہو سکتا ہے۔ اس لیے بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر برابر زور دیا جا رہا تھا، کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر مذاکرات کا سلسلہ بحال کریں۔ چین اور روس اس مہم میں پیش پیش ہیں، کیوں کہ اُن کے خیال میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے جنوبی ایشیا اور افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی کو مضبوط بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، اُن کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے پاک اور دوستانہ تعاون پر مبنی تعلقات کا قیام ضروری ہے۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور سی پیک کے تحت گوادر اور کاشغر کے درمیان تجارتی راستوں کی تعمیر اور ان کے ساتھ ساتھ صنعتوں اور توانائی کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی حفاظت بھی صرف اُس صورت ممکن ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان امن ہو۔ خیال ہے کہ چین اور روس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھی پس پردہ سفارتی کوششوں نے بھارت کو پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی تجویز کو قبول کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ستمبر کے اوائل میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان اور بھارت نے بھی اس سمت اہم کردار ادا کیا ہے۔
جب بھارت کی طرف سے اس ملاقات کا اعلان کیا گیا تو ہر حلقے کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا اور امید ظاہر کی گئی کہ اس ملاقات سے پیدا ہونے والا سازگار ماحول دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ امن مذاکرات کو پھر سے شروع کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ لیکن بھارت کی طرف سے ملاقات کی منسوخی نے ہر ایک کو حیران اور ششدر کر دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملاقات کی منسوخی سے پاکستان اور بھارت میں تلخی میں اضافہ ہوگا۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ جبکہ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کو دونوں ملکوںمیں تقسیم کرنے والی سرحد کے پار سے بھارت سرجیکل سٹرائیک یا کسی اور بڑی مہم جوئی کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ بھارت کی طرف سے ملاقات کو کیوں منسوخ کیا گیا؟ اس سلسلے میں بھارت کی وزارت خارجہ نے جو بیان جاری کیا ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر ایک جھڑپ کے دوران مارے جانے والے بھارتی بارڈر سکیورٹی کے ایک اہلکار کی لاش کو مسخ کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں شوپیاں کے علاقے میں مجاہدین کے ہاتھوں تین پولیس افسروں کا اغواء کے بعد قتل ایسے واقعات ہیں جن کے بعد اس ملاقات کا انعقاد ممکن نہیںرہا۔ لیکن بھارتی حکومت کا یہ استدلال خود بھارتی میڈیا کو قائل نہیں کر سکا۔ بھارت کے ایک مقتدر اخبار ''دی ہندو‘‘ نے اپنے ادارے میں لکھا ہے کہ بھارت کا یہ منتطق کمزور ہے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری مجاہدین میں جھڑپیں تو کئی ماہ سے ہو رہی ہیں جن میں کم از کم 13 پولیس افسر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی طرح لائن آف کنٹرول پر جھڑپوںکا سلسلہ بھی پرانا ہے۔ اور ان جھڑپوں میں 20 کے قریب بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ وزرائے خارجہ کی ملاقات طے ہونے سے پہلے وقوع پذیر ہوا۔اخبار نے بھارتی حکام سے سوال پوچھا ہے کہ : پھر کیوں اس ملاقات کو منسوخ کیا گیا؟ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ نے جو وضاحت پیش کی ہے، وہ ناکافی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 2019ء کے پارلیمانی انتخابات اس ملاقات کی تنسیخ کا اصل سبب ہیں۔ کیوں کہ وزیراعظم مودی کی پارٹی بی جے پی کو ڈر ہے کہ اگر اُس کی حکومت نے اس موقعہ پر پاکستان سے مذاکرات پر رضا مندی کا اظہار کیا تو بھارتی عوام خصوصاً ملک کی شمال اور مغربی ریاستوں میں سخت رد عمل پیدا ہوگا۔ جسے بی جے پی کی حریف پارٹیاں یعنی کانگرس اور سماج وادی پارٹی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ لیکن بھارتی انتخابات کی حالیہ تاریخی ہمیں بتاتی ہے کہ بھارتی انتخابات میں پاکستان کارڈ کبھی کسی پارٹی کے کام نہیں آیا۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی منفی نعروں پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی منسوخی کی اصل وجہ نریندر مودی کا اپنا انتہا پسندانہ نظریہ اور اس نظریے کی علمبردار آر ایس ایس پر اس کا اور اس کی پارٹی کا کلیتاً انحصار ہے۔ جولائی 2014ء میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مودی کا یوٹرن بھی اس سوچ کا نتیجہ تھا بہر حال بھارتی حکومت کے اس اقدام نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کو اور آگے ڈال دیا ہے اور دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافے کا بھی امکان پیدا کر دیا ہے۔ لیکن جنوبی ایشیا اور اس سے باہر حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک لمبے عرصے تک باہمی مذاکرات سے پہلو تہی نہیں کر سکتے۔ جس انٹرنیشنل لابی نے اس ملاقات کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا تھا، وہ اس کی تنسیخ کے بعد پھر سرگرم ہو گی اور کوئی بعید نہیں کہ مئی میں بھارت انتخابات کے بعد اس قسم کا ایک اور اقدام سامنے آ جائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں