اگرچہ افغانستان کے صوبہ قندھار میں طالبان کے گورنر ہائوس میں امریکی جنرل سکاٹ ملر پر حملے‘ جس میں وہ بال بال بچے‘ کے بعد حالات کچھ تشویشناک نظر آتے ہیں‘ لیکن افغانستان کے بارے میں ایک مثبت خبر یہ ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، موخرالذکر نے اُسے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل فریقین کے درمیان افغانستان میں گزشتہ سترہ برس سے جو خونریز خانہ جنگی جاری ہے، اُسے ختم کرنے کیلئے جو ملاقاتیں ہوتی تھیں، اُن کے تسلسل کے بارے میں کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کروائی جاتی تھی‘ بلکہ اکثر مواقع پر افغان طالبان کی طرف سے ان رابطوں کے بارے میں لاعلمی یا لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا تھا۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے مذاکرات کے اس سلسلے کی نا صرف تردید نہیں کی گئی بلکہ اس کی اونرشپ قبول کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا عہد کیا گیا ہے۔ افغانستان کے محاذ سے یہ ایک اہم اور خوش آئند خبر ہے۔ اس سے افغانستان میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور قیامِ امن کی ایک امید پیدا ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی افغانستان میں آمد کے بعد پیدا ہوئی ہے جو اس مسئلے پر ایک سخت گیر پالیسی کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ماضی میں اُن کے سخت گیر بیانات‘ خصوصاً پاکستان پر طالبان کی اعانت کے الزامات نے صورتحال کو کافی خراب کر دیا تھا۔ اور انہی وجوہات کی بنا پر افغانستان کے پیچیدہ مسئلے کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی‘ لیکن خلیل زاد کی آمد کے بعد طالبان کے دیرینہ موقف میں لچک سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو احساس ہو گیا ہے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کے بارے میں جس پالیسی اور حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، وہ کام نہیں کر رہی اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی دراصل اُن کے پیشرو بارک اوبامہ کی پالیسی کے اُلٹ ہے۔
اوبامہ نے افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے بتدریج انخلا پر مبنی حکمت عملی کا اعلان کرکے افغانستان میں سلامتی اور امن کی ساری ذمہ داری افغان افواج پر ڈال دی تھی لیکن ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہو کر اس پالیسی کو بدل دیا۔ ٹرمپ نے نہ صرف امریکی افواج کی تعداد بڑھائی، بلکہ امریکی افواج کو جنگ میں براہ راست شریک ہونے اور افغان افواج کی مدد کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ افغانستان میں غیر معینہ عرصے کیلئے رہنا چاہتا ہے، کیونکہ اس پورے خطے سے اُس کے اہم مفادات وابستہ ہیں‘ لیکن ٹرمپ کی اس افغان پالیسی کا سب سے نمایاں پہلو، پاکستان پر دباؤ ڈال کر افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور مصالحت کے عمل کے فروغ کیلئے چند اقدامات کا حصول تھا۔ ان میں افغانستان کی سرحد سے ملنے والے پاکستانی علاقوں میں مبینہ طور پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے علاوہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کا کردار بھی شامل تھا۔ ان اہداف کے حصول کیلئے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے پاکستان کی فوجی امداد روک دی اور افغانستان میں بھارت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب بھی دی۔ قدرتی طور پر پاکستان کے لئے یہ صورت حال ناقابل قبول تھی‘ اس لئے افغانستان میں نا صرف امن کے قیام کی کوششیں رُک گئیں بلکہ جنگ کی شدت میں اضافہ بھی ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق رواں سال افغانستان میں طالبان کے حملوں اور امریکی فضائیہ کی بمباری سے گزشتہ برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں صدر اشرف غنی کی حکومت ملک میں اپنی رِٹ نافذ کرنے میں بُری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ علاوہ ازیں افغان فوج کے جانی نقصان میں اضافہ ہوا ہے‘ اور فوج کی صفوں سے بھاگ جانے والے فوجیوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان پر بھی یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ویت نام کی طرح امریکہ افغانستان سے دُم دبا کر بھاگنے کیلئے تیار نہیں بلکہ امریکی اور نیٹو افواج پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں جمع ہو کر طالبان کے خلاف براہ راست جنگ میں حصہ لیں گی۔ اس سے افغانستان میں جنگ میں شدت آ رہی ہے اور اس میں نقصان زیادہ تر افغانوں کا ہو رہا ہے‘ کیونکہ امریکی اور نیٹو افواج انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کی وجہ سے اپنی صفوں میں جانی نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے میں کامیاب ہیں۔ ان حالات کے باعث افغانستان میں مسلسل جنگ کے خلاف عوامی سطح پر بھی جذبات اُبھر رہے ہیں‘ جن کا مظاہرہ چند ماہ پیشتر قندھار سے کابل پیدل چلنے والوں پر مشتمل ایک امن کارواں کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ عید کے موقعہ پر فائر بندی کے دوران طالبان اور افغانستان کی سرکاری افواج کے درمیان قریبی اور دوستانہ میل جول اور خیرسگالی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے تھے، انہوں نے افغان طالبان پر بھی دباؤ ڈالا ہے کہ وہ جنگ کا راستہ چھوڑ کر امن اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔ دوسری طرف پاکستان کی طرف سے بھی پہلے کے مقابلے میں طالبان پر مذاکراتی عمل میں حصہ لینے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسلام آباد پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اگر واشنگٹن کی رائے اور خدشات کو نظر انداز کئے رکھنے کی پالیسی جاری رکھی گئی تو ٹرمپ پاکستان کے خلاف مزید اقتصادی اقدامات کر سکتا ہے۔
پاکستان کے سب سے اہم اور مخلص ترین دوست چین نے بھی اپنے چند حالیہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ خطے میں محاذ آرائی اور جنگ کی بجائے اُن کی ترجیح علاقائی سطح پر تعاون اور امن کا ماحول ہے‘ کیونکہ اسی ماحول میں چین کی طرف سے شروع کئے گئے تجارتی اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آثار یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں کوئی اہم اور فیصلہ کن پیش قدمی ہونے والی ہے کیونکہ اس مسئلے پر تمام سٹیک ہولڈر ایک پیج پر آ رہے ہیں۔ مگر اس قسم کی اہم اور فیصلہ کن پیش قدمی میں اب بھی کچھ وقت لگے گا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کا مسئلہ پیچیدہ تر ہو چکا ہے۔ اب اس میدان میں نئے کھلاڑی شامل ہو چکے ہیں۔ اُن کے آنے سے کھیل کے رُولز بدل چکے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں جنوبی، مغربی اور وسطی ایشیاء کے خطوں میں ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جن میں سے بعض کا افغانستان سے براہ راست تعلق ہے اور بعض بالواسطہ طور پر افغان مسئلے پر اثر انداز ہو رہے ہیں مثلاً افغانستان اور پاکستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کی حکمت عملی جس کا اعلان گزشتہ سال اگست میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح امریکہ اور بھارت کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر عالمی سطح پر سکیورٹی کے شعبے میں تعاون میں اضافہ بھی علاقائی مسائل پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو افغانستان میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی تاکید اور بھارت کی اس پر رضامندی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حال ہی میں چین اور بھارت کے درمیان مشترکہ طور پر افغان سفارتکاروں کو تربیت دینے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ بھارت میں چین کے سفیر نے کہا کہ چین بھارت، پاکستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر بین الاقوامی تجارت اور زمینی راستوں کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ نئی دہلی میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ سربراہی کانفرنس اور اس موقعہ پر روس کی طرف سے بھارت کو S-400 فضائی دفاعی نظام فروخت کرنے کے اعلان نے اس تاثر کو ختم کر دیا کہ روس بھارت سے ہٹ کر پاکستان کی طرف جھک رہا ہے۔ اسی طرح روس، چین اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی طرف مائل کرنے کیلئے سفارتی کوششیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں جنگ کے فوری خاتمہ کی خواہاں ہے اور اسے یقین ہے کہ پاکستان اس میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اب اگر افغانستان میں مذاکرات کے ذریعہ مسئلے کے حل کی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو بے شک اس کی بنیاد، افغان طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت پر ہو گی لیکن اس کے بعد جن ممالک کا کردار اہم ہو گا، ان میں پاکستان کے علاوہ اب چین، روس، بھارت اور وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی شامل ہوںگی۔ پاکستان کو اس صورت حال کیلئے تیار رہنا چاہئے۔