وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں انکشاف کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے سکھ یاتریوں کو ڈیرہ بابا نانک سے کرتار پور میں واقع گوردوارہ کی زیارت کو سہل بنانے کیلئے بھارتی حکومت کو جو تجویز پیش کی تھی‘ اُس پر مودی حکومت نے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔ پاکستان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان 28نومبر کو پاکستان کی جانب اس کوریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ دریائے راوی کے اُس پار بھارتی حکومت نے تعمیر کا وعدہ کیا ہے۔ ڈیرہ بابا نانک اور کرتار پور میں سکھوں کے مقدس مذہبی مقامات ہیں لیکن دونوں کے درمیان دریائے راوی کے ساتھ ساتھ پاک بھارت بین الاقوامی سرحد واقع ہے‘ اس لئے سکھ یاتریوں کو گورو بابا نانک کے جنم استھان کرتار پور گوردوارہ کی یاترہ کے لئے پاکستان کا ویزہ لے کر واہگہ کے راستے امرتسرسے لاہور اور لاہور سے براستہ شاہدرہ‘ کالا خطائی روڈ پر بدوملہی سے کرتار پور جانا پڑتا ہے۔ کوریڈور کی تعمیر کے بعد سکھ یاتریوں کو اپنے مقدس فریضے کیلئے صرف پانچ چھ کلو میٹر راوی کے پار فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ اسی لئے ایک عرصے سے اس کوریڈور کا مطالبہ سکھوں کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ فروری 1999ء میں جب بھارت کے سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی مشہور ''دوستی بس سروس‘‘ سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملنے کیلئے لاہور تشریف لائے تھے، تو کہا جاتا ہے کہ اُس وقت انہوں نے اس کوریڈورکی تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ایک بیان کے مطابق سابق وزیراعظم محترمہ شہید بے نظیر بھٹو بھی اس کوریڈور کی تعمیر کی حمایت کر چکی ہیں۔ 2004ء میں پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت جب دونوں ملکوں میں آمد و رفت کیلئے نئے راستے کھولے گئے‘ جن میں کھوکھرا پارموناباؤ ریلوے لائن اور امرتسر لاہور کرتار پور سڑک سے لوگوں کو آنے جانے کی سہولیات شامل ہیں، تو اس کوریڈور کی تعمیر کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی‘ لیکن پاک بھارت کشیدہ تعلقات اور دونوں طرف سے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسے عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
2018ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بطور وزیراعظم اسلام آباد میں حلف برداری کی تقریب میں، آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھارتی کرکٹر سدھو کو بتایا کہ وہ کرتار پور اور ڈیرہ بابا نانک کے درمیان زائرین کی سہولت کیلئے ایک کوریڈور کی تعمیر کے حق میں ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت کی طرف سے اس کوریڈور کی تعمیر کیلئے بھارتی رضامندی پر جہاں سکھ برادری میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے، وہاں سرحد کے دونوں طرف رہنے والے کروڑوں پاکستانیوں اور بھارتی باشندوں میں بھی امید پیدا ہوئی ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے گی۔ گزشتہ تقریباً 5برسوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل معطل ہے۔ کشمیر کے ساتھ ملنے والی پاکستانی سرحد اور وادی میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی سرحدی افواج ایک دوسرے پر گولہ باری کرتی رہتی ہیں۔ اس فائرنگ اور گولہ باری سے سرحد کے دونوں طرف بسنے والے باشندے بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ مالی نقصان کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں سویلین بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اس کراس فائرنگ کا شکار ہونے والے لوگوں کو اُمید ہے کہ کرتار پور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر سے پاک بھارت بات چیت سے لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ کا سلسلہ تھم جائے گا۔
کرتارپور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر پر پاکستان اور بھارت کا اتفاق یقینا ایک مثبت اشارہ ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آنے کی امید ہے لیکن یہ کہنا کہ اس کے بعد پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا‘ ابھی قبل از وقت ہے‘ کیونکہ اس مسئلے پر بھارت نے ایک سخت اور غیر لچک دار رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ حالانکہ پاکستان نے متعدد بار بھارت کو فوری طور پر غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کی‘ لیکن بھارت کی طرف سے ہمیشہ دہشت گردی سے متعلق شرائط پوری کرنے پر اصرار کیا گیا۔ ایک اور عنصر کی وجہ سے بھی کرتارپور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر پر اتفاق کے باوجود مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہونے کا امکان کم ہے۔ وہ عنصر ہے‘ چند ماہ بعد ہونے والے بھارت کے پارلیمانی انتخابات۔ ان انتخابات سے پہلے پاک بھارت مذاکرات کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی ہندو انتہا پسندوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف اپنا غیر لچکدار رویہ برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ کرتار پور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر پر بھارت کی بی جے پی حکومت کی رضامندی کا بھی 2019ء کے پارلیمانی انتخابات سے تعلق ہے۔ وزیر اعظم مودی اس کی تعمیر کیلئے پاکستانی تجویز کو رد کرکے یا اس پر خاموشی اختیار کر کے مشرقی پنجاب کے سکھوں کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ اس پر رضامندی کا اظہار کرکے وہ آئندہ انتخابات میں مشرقی پنجاب میں کانگرس کے بڑھتے ہوئے ا ثر و رسوخ کے خلاف بند باندھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اگلے سال نومبر میں سکھ، گورو بابا نانک کا پانچ سو پچاسواں جنم دن منا رہے ہیں۔ خیال ہے کہ اُس وقت تک یہ کوریڈور مکمل ہو جائے گا۔ اس لئے اگلے برس سے بھارت سے پاکستان آنے والے سکھوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت بھی سال کے مختلف مواقع پر سکھ اپنے مذہبی مقاما ت کی یاترا اور اہم مذہبی دن منانے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں پاکستان آتے ہیں۔ کرتار پور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر کے بعد ان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ پاک بھارت ثقافتی اور مذہبی مقاصد کیلئے لوگوں کی آمد و رفت میں یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ اس کے نتیجے میں نئی تجاویز یا مطالبات جنم لے سکتے ہیں کیونکہ کرتار پور ڈیرہ بابا نانک ایک ایسی تجارتی شاہراہ پر واقع ہیں جو تقسیم ہند سے پہلے دہلی، امرتسر سے گزرتا ہوا ڈیرہ بابا نانک کے ذریعہ پاکستان کے قصبہ درمان سے جموں تک جاتا تھا۔ اس وقت اگرچہ پاک بھارت تعلقات جمود کا شکار ہیں لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات کے پیش نظر یہ جمود زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتا۔ جلد یا بدیر پاکستان اور بھارت کو دو طرفہ تعلقات نارمل حالت میں لانا پڑیں گے۔ ایسی صورت میں سب سے پہلے جس شعبے پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی وہ دوطرفہ تجارت ہے کیونکہ دونوں ممالک کی حکومتیں غربت کے خاتمہ کیلئے اپنی اپنی معیشت کو ترقی دینا چاہتی ہیں لیکن یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنا کر دوطرفہ تجارت کو فروغ نہ دیں۔ اس وقت پاکستان اور بھارت میں تجارت کراچی کی بندرگاہ اور واہگہ کے راستے ہو رہی ہے۔ سندھ میں کھوکھرا پار مونا باؤ ریل لنک بحال ہونے کے بعد اس راستے اور پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کے قدیم راستے تجارت کی تجاویز پیش کی جا چکی ہیں لیکن پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے باعث ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا؛ تاہم تعلقات میں بہتری کے بعد ان تجاویز کے علاوہ ڈیرہ بابا نانک روٹ پر بھی نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان بلکہ ریاست جموں و کشمیر تک جانے والے تجارتی راستے کی بحالی کی تجویز پیش کی جا سکتی ہے۔
2008 میں راولا کوٹ اور پونچھ کے درمیان انٹرا کشمیر تجارت کا آغاز ہوا تھا۔ اس تجربے کی کامیابی کے بعد جموں اور سیالکوٹ کے تجارتی راستے کو بحال کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی تھی۔ کرتار پور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر کے بعد امرتسر اور جموں کے درمیان اس تجارتی راستے کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نا صرف ان علاقوں کی معاشی صورت حال بہتر ہوگی بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے ہمسائیگی کے تعلقات اور تعاون میں ایک نیا باب کھل سکتا ہے۔ اپنی جگہ یہ اقدام بہت مستحسن بلکہ ضروری نظر آتا ہے مگر اسے حاصل کرنے میں دیر لگ سکتی ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شکوک و شبہات اور بدگمانی کی ایک ایسی وسیع خلیج حائل ہے جسے پاٹنے کیلئے بہت وقت درکار ہے لیکن اگر پاکستان اور بھارت کی حکومتیں مذہبی مقاصد کیلئے کرتار پور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور جیسے اہم اقدام پر راضی ہو سکتی ہیں تو دیگر تجارتی راستوں کی بحالی پر بھی اتفاق ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کرتار پور ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کی تعمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اتفاق نے تجارت اور آمد و رفت کیلئے دیگر راستوں کی بحالی کا امکان پیدا کر دیا ہے۔