افغانستان کے صدر اشرف غنی کا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پختون مظاہرین کے بارے میں بیان بلاجواز ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ اس لئے کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں ایک صریح مداخلت ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ بیان ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ہے جسے ایک آزاد اور خودمختار ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کسی صورت قبول نہیں کر سکتا۔ حکومت کے علاوہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین نے بھی افغان صدر کے اس بیان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کی طرح‘ خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے پشتون پاکستان کے شہر ی ہیں۔ ان کو درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنا اور ان کی شکایات کو دور کرناحکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے‘ کسی اور ملک کو اس پر رائے زنی کا حق نہیں۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی قانون کے ضابطوں‘ اقوام متحدہ کے اصولوں بلکہ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔ حکومت پاکستان نے اس غیر ذمہ دارانہ ٹویٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف اس کی مذمت کی ہے بلکہ احتجاج بھی کیا ہے‘ لیکن افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی ایک مخصوص تاریخ ہے اور اس وقت افغانستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ ایک نازل مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اس لئے پاکستان کے خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے حوالے سے افغان صدر کے بیان کا بنظر ِغور جائزہ لینا چاہئے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ افغان صدر نے یہ بیان کیوں دیا؟ حالانکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے کابل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اہم اقدامات کئے اور ان اقدامات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے آثار بھی نظر آئے۔ خصوصاً افغانستان میں قیام ِامن اور مصالحت کے فروغ کے لیے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور بین الاقوامی برادری کی خواہش پر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ سب نے بشمول امریکہ نے پاکستان کے اس مثبت اور تعمیری کردار کی تعریف کی ہے۔ اس کے باوجود افغان صدر نے یہ اشتعال انگیز بیان کیوں دیا؟ بیشتر تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ افغان حکومت اس وقت معاملات میں خود کو تنہا محسوس کر رہی ہے اس لئے صدر اشرف غنی نے اپنی حکومت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے گڑے مردے اکھاڑنے اور پاکستان کے ساتھ پرانے مسائل کو ازسر نو زندہ کرنے کے لیے یہ بیان دیا۔ اسی مقصد سے پختونستان کا شوشہ اور ڈیورنڈ لائن کی ہوائی چھوڑی گئی ہے۔
صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ امریکہ نے اسے ساتھ لئے بغیر طالبان سے اپنی فوجوں کے انخلا پر بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔دوسری جانب طالبان کا اصرار ہے کہ وہ بھی اس حکومت کے ساتھ کبھی بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ یہ ایک غیر قانونی اور امریکہ کی پٹھو حکومت ہے۔ افغانستان کے شمال میں طاقتور ملک روس نے اس حکومت کو بلائے بغیر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر ڈالی جس میں افغانستان کے دیگر سیاستدانوں نے تو شرکت کی مگر اشرف غنی کی حکومت کو مدعو نہ کیاگیا۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کابل حکومت کو امریکی حمایت کا یقین تو دلاتے ہیں او رافغان طالبان پر بھی واضح کرتے ہیں کہ انہیں صدر اشرف غنی کی حکومت سے بات چیت کرنا پڑے گی‘ لیکن اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ افغانستان کی موجودہ حکومت صرف امریکہ کے سہارے قائم ہے اور جوں ہی بیرونی افواج نے افغانستان خالی کیا یہ حکومت دھڑام سے نیچے آ جائے گی۔
اس صورتحال سے بچنے کے لیے اشرف غنی اپنی حکومت کے وجود اور اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف ان کا بیان ان ہی کوششوں کا حصہ ہے۔ دوسرا افغانستان میں پانچ سال کے بعد صدارتی انتخابات جولائی میں ہونے جا رہے ہیں اور صدر اشرف غنی ایک امیدوار کی حیثیت سے ان میں حصہ لے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ صدر اشرف غنی اس بیان کے ذریعے عام افغانوں میں پاکستان کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو ابھار کر اپنے حق میں ووٹوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کے ٹویٹ کے پیچھے محرکات کچھ بھی ہوں۔ ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کو آئندہ آنے والے برسوں میں افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہت محتاط رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا ایک اہم مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا ہے جسے بین الاقوامی قانون‘ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری ایک بین الاقوامی حد تسلیم کرتی ہے‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی کسی حکومت نے اسے ایک بین الاقوامی سر حد تسلیم نہیں کیا ‘حتیٰ کہ طالبان حکومت (1996-2001) نے بھی اسے تسلیم کرنے کا اعلان نہ کیا تھا۔ بلکہ انہوں نے تو سرے سے ہی اس کے وجود سے انکار کرتے ہوئے اس کو جہاں مرضی جب مرضی پار کرنے کے حق پر اصرار کیا تھا اور اس پر انہوں نے عمل بھی کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو طالبان کے کچھ اہلکاروں کو ‘جن میں ایک وزیر بھی شامل تھے‘ بغیر قانونی کاغذات کے سرحد پار کرنے کے جرم میں گرفتار بھی کرنا پڑا تھا۔ مشرف دور میں جب ضیاالحق کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں اور پاکستان کی بعض مذہبی سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے قوم کو پہنچنے والے نقصانات کا احساس ہوا تو پرویز مشرف کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کی قیادت میں ایک وفد نے اس مسئلے پر آنجہانی ملا عمر سے بات کی اور بڑی مشکل سے پاسپورٹ اور ویزے کے ساتھ چند مقررہ مقامات سے سرحد عبور کرنے پر راضی کیا۔ پاکستان اور افغان طالبان ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں‘ سب جانتے ہیں مگر طالبان کی طرف سے ابھی تک ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کے بارے میں کوئی بیان نہیں آیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ اگر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد موجودہ حکومت کی جگہ طالبان کی حکومت بھی قائم ہو جائے تب بھی افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں جنگ بند کے بعد بھی پاکستان کے لیے حالات کتنے مخدوش رہیں گے۔ اس لئے پاکستان کو اپنی افغان پالیسی کے مقاصدکے بارے میں واضح مؤقف اختیار کرنا چاہئے۔
ہمارے قومی مفاد اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم افغانستان میں جو بھی حکومت قائم ہو اس سے ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کروائیں‘ کیونکہ علاقائی سرحدیں کسی بھی ریاست کا ایک اہم جزو ہوتی ہیں۔ ان کے ایک ایک انچ کی حفاظت ریاست کے ہر فرد کا اہم ترین قومی فریضہ ہوتا ہے۔اس لئے صدر اشرف غنی کے بیان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے ‘ اور اسے اس کے صحیح سیاق و سباق سے الگ نہیں رکھنا چاہئے۔ پاکستان کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے ‘خواہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت قائم ہو۔
ہمارے قومی مفاد اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم افغانستان میں جو بھی حکومت قائم ہو اس سے ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کروائیں‘ کیونکہ علاقائی سرحدیں کسی بھی ریاست کا ایک اہم جزو ہوتی ہیں۔ ان کے ایک ایک انچ کی حفاظت ریاست کے ہر فرد کا اہم ترین قومی فریضہ ہوتا ہے۔