صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں فرمایا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، البتہ اس کے کچھ حصوں کو تبدیل کر کے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اپنے مؤقف کے حق میں جو دلیل انہوں نے پیش کی ،وہ یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی آئین میں ترمیم کر سکتی ہے تو 18ویں آئینی ترمیم میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے کیونکہ یہ ترمیم بھی آئین پاکستان کا حصہ ہے۔ البتہ ایسا کرنے کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے اور اگر حزب مخالف اس پر آمادہ ہو تو ایسا کرنا ممکن ہے۔ صدر مملکت نے جو کچھ فرمایا ہے، بظاہر وہ منطقی اور آئینی اور قانونی ضوابط کے عین مطابق ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے 18ویں ترمیم پر جس طرح ایک دوسرے سے مختلف بیانات سامنے آتے رہے ہیں، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا آسان نہیں کیونکہ چھوٹے صوبوں، خصوصاً سندھ اور بلوچستان کی طرف سے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ صدر مملکت کے علاوہ موجودہ حکومت کے چند اہم ارکان نے بھی رائے دی ہے کہ 18ویں ترمیم کو بحیثیت مجموعی نہیں چھیڑا جائے گا، بلکہ اس میں جزوی ترمیم کر کے ایسی شقوں کو نکالا جائے گا جن کے تحت مرکز سے صوبوں کو کثیر تعداد میں فنڈز منتقل کئے گئے ہیں۔ خصوصاً ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ(N.F.C Award) کے تحت صوبوں کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی کل آمدنی سے 57.5 فیصد حصہ ملنے پر موجودہ حکومت کو خصوصی طور پر اعتراض ہے۔ وزیراعظم عمران خان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ 18ویں ترمیم نے مرکز کو کنگال کر دیا ہے کیونکہ اپنے حصے سے اہم شعبوں مثلاً بیرونی قرضوں (بمعہ سود) کی ادائیگیوں، دفاع اور انتظامی اخراجات کے بعد مرکز کے پاس ترقیاتی بجٹ کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ اس لئے کل قومی آمدنی میں سے مرکز اور صوبوں کو جس تناسب سے حصہ ملتا ہے، اُس میں تبدیلی ضروری ہے۔
18ویں آئینی ترمیم دراصل 100سے زیادہ آئینی تبدیلیوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بعض کا تعلق بنیادی حقوق اور عدالتی طریقہ کار میں بہتری سے ہے۔ مگر اس کے اہم حصے دو ہیں۔ ایک کا تعلق ضیاء الحق کی آٹھویں اور مشرف کی 17ویں آئینی ترمیم کو ختم کر کے پارلیمنٹ کے اختیارات کی بحالی ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے تحت مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم میں کنکرنٹ (Concurrent) لسٹ کا خاتمہ کرکے اور سولہ سے زائد وزارتوں اور محکموں کو مرکز سے صوبوں کی تحویل میں دے کر صوبائی خود مختاری کے دائرے کو وسیع کیا گیا ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یہ سب کچھ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے سے طے کیا گیا تھا۔ اس لئے ان شعبوں سے متعلقہ 18ویں آئینی ترمیم کی شقوں پر کوئی تنازعہ نہیں۔ اصل میں جھگڑا قومی مالیاتی کمیشن کے ساتویں ایوارڈ (2010ئ) کے تحت مرکز اور صوبوں میں محاصل سے وصول ہونے والی آمدنی کی تقسیم کا فارمولا ہے، جس کے تحت موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کو صرف 42.5 فیصد حصہ دے کر کنگال کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ الزام ایک ایسی پرانی سوچ کا حصہ ہے جس کے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اپنے قیام کے ستر، بہتر سال بعد بھی صوبے اتنی مقدار میں فنڈز مناسب طور پر خرچ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ لیکن صوبے اس رائے سے متفق نہیں۔ اس رائے کا انگریز کے دور میں تو کچھ جواز ہو سکتا تھا کیوں کہ وہ اپنے نوآبادیاتی مفادات کے تحفظ کے لئے مضبوط مرکز اور کمزور صوبوں کے حق میں تھا۔ لیکن آزادی کے بعد تو صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ 1947ء کے بعد پاکستان اور نہ ہی بھارت میں صوبوں کو کمزور رکھ کر مرکز کو طاقتور بنانے کی گنجائش باقی رہی ہے کیوں کہ 1909 ء میں جب انگریز حکومت نے ہندوستان میں صوبوں کے باقاعدہ قیام کا اعلان کیا لیکن اختیارات دینے سے احتراز کیا، تو نہ صرف کانگرس بلکہ مسلم لیگ نے بھی مرکز سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کیلئے جدوجہد کی تھی۔ مسلم لیگ تو اس معاملے میں کانگرس سے کہیں آگے تھی۔ یعنی صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کے حق میں تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ مسلم لیگ مضبوط مرکز کی چیمپئن بن گئی تھی، مگر عوامی دباؤ کے تحت پاکستان میں آئینی ارتقاء کے عمل میں صوبائی خود مختاری کے دائرہ کار کو بتدریج وسیع کرنا پڑا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم اس عمل کی مظہر ہے اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے مالیاتی اختیارات میں اضافہ اس کا سب سے اہم حصہ ہے کیوںکہ جیسا کہ کہا جاتا ہے اصل صوبائی خود مختاری مالیاتی امور میں خود مختاری ہے۔
صوبوں کے مالیاتی امور میں اختیارات کو محدود کرنا، دراصل صوبائی خودمختاری پر حملہ ہے، جسے کوئی بھی صوبہ خاموشی سے برداشت نہیں کرے گا۔ صدر مملکت اور موجودہ حکومت کے دیگر اہم ارکان کی طرف سے اگر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ فنڈز کی تقسیم کے فارمولے کے علاوہ، باقی اٹھارہویں ترمیم ساری کی ساری ٹھیک ہے، تو اس میں وزن نہیں۔ کیوں کہ مالیاتی خود مختاری ہی دراصل صوبائی خود مختاری ہے اور صوبوں کے مالیاتی اختیارات کو محدود کرنا حقیقت میں صوبائی خود مختاری کے دائرے کو تنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے حکومت کو اس معاملے میں آگے بڑھنے سے پہلے کئی دفعہ سوچنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جیسے مسئلے پر عدم اتفاق، آئین سازی میں تاخیر کا باعث بنا، وہ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ تھا۔ ایوب خاں اور اُس کے مارشل لاء کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث اسی لئے بتایا جاتا ہے کہ ایوب خاں نے 1956ء کے آئین کو منسوخ اور 1962ء کے صدارتی آئین کو نافذ کر کے پاکستان کو عملاً ایک وحدانی ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات کو ون مین، ون ووٹ کی بنیاد پر کرانے پر عوامی لیگ کے اصرار کی بھی یہی وجہ تھی کیونکہ 1958ء سے 1970ء تک جو سیاسی نظام پاکستان میں رائج رہا، اُس میں تمام اختیارات مرکز کے پاس تھے۔ عوام کو اپنے نمائندوں کے ذریعے مرکزی اور نہ ہی صوبائی سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کا حق حاصل تھا لیکن اب صورت حال یکسر مختلف ہے۔ پاکستان میں نہ صرف مرکز اور صوبوں میں جمہوری اور منتخب حکومتیں قائم ہیں، بلکہ ایک متفقہ آئینی ڈھانچے کے اندر کام بھی کر رہی ہیں۔ ان میں اٹھارہویں ترمیم اور ساتواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ بھی شامل ہے۔ میرے خیال میں ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا قومی مفاد کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ اب یہ دلیل بھی کارگر نہیں رہی کہ خراب گورننس، ناکافی انفراسٹرکچر اور مہارت کے فقدان کی وجہ سے صوبوں میں زیادہ فنڈز کے موزوں استعمال کی استعداد اور صلاحیت نہیں۔ صوبوں کی تحویل میں سیلز ٹیکس آنے کے بعد اس کی کولیکشن میں بہتری اس بات کا ثبوت ہے کہ صوبوں میں وہ تمام مہارتیں موجود ہیں، جن کو بروئے کار لا کر وہ اپنے ہاں ترقیاتی کام کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی صوبوں کے مقابلے میں مرکز زیادہ بااختیار ہے اور متعدد شعبوں میں صوبے اب بھی مرکز کی مدد کے محتاج ہیں، مگر گزشتہ دہائیوں میں پلوں کے نیچے سے دریاؤں کا اتنا پانی گزر چکا ہے کہ اب صوبوں کو ایک ایسے بچے سے تشبیہہ نہیں دی جا سکتی جسے انگلی سے پکڑ کر چلانے کی ضرورت ہے، بلکہ صوبے اب بالغ ہو چکے ہیں۔