بحر ہند کے عین وسط میں اور بھارت کے جنوبی کونے سے ایک تنگ آبی پٹی کے ذریعے جدا ‘ ڈھائی کروڑ سے بھی کم آبادی والے ملک سری لنکا میں حال ہی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر پوری دنیا نہ صرف ایک صدمے کی حالت میں ہے بلکہ حیران بھی ہے۔ اس لئے کہ یہاں کی 70فیصد سے زائد سنہالی نسل کی آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے۔ اس کے بعد تامل نسل کے ہندو ہیں جن کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 17فیصد ہے۔ مسلمانوں کا اس کے بعد نمبر آتا ہے جو آبادی کا تقریباً سات فیصد ہیں۔ دہشت گردی کے ان حملوں کی تفصیلات جوں جوں سامنے آ رہی ہیں‘ لوگ انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘کیوں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پس پردہ جن عوامل کا اب تک نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا رہا ہے‘ ان میں پس ماندگی‘ غربت‘ جہالت یا سماجی اور سیاسی ناانصافی رہے ہیں۔ مگر سری لنکا میں صدیوں سے بسنے والے مسلمان پرامن اور خوشحال زندگی بسر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق تجارت اور کاروبار سے ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومتی ذرائع کے مطابق جن آٹھ خودکش بمباروں نے یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف مقامات پر ایسٹر کے موقعہ پر گرجا گھروں اور لگژری ہوٹلوں کو نشانہ بنایا ہے‘ ان میں سے اکثریت کا تعلق دولت مند گھرانوں سے تھا اور مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ برطانیہ اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان ہیں۔ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو ان کے ایک اہم مذہبی تہوار کے موقعہ پر نشانہ بنانے کی وجوہات میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد میں مسلمان نمازیوں پر حملوں کے خلاف ردعمل بتایا جاتا ہے۔ مگر اس پر یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کہ اتنی تھوڑی مدت میں خودکش بمباروں کے ذریعے اتنے منظم اور وسیع حملے کرنا ناممکن ہے۔ سری لنکا میں دہشت گردی کی جن کارروائیوں نے ملک گیر سطح پر تباہی مچائی ہے ان کے لئے پوری تیاری کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ کرائسٹ چرچ اور سری لنکا میں خودکش بم حملوں میں صرف ایک آدھ ماہ کا عرصہ گزرا ہے۔ اتنے کم عرصے میں اتنے منظم اور وسیع پیمانے پر دہشت گردی کے حملے کرنا مشکل ہے۔ اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ سری لنکا میں عبادت گاہوں اور لگژری ہوٹلوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گیا ہو گا‘ مگر جو بات سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ سری لنکا کے عیسائیوں کو دہشت گردی کا کیوں نشانہ بنایا گیا؟ کیونکہ ان کی تعداد کا سری لنکا کی کل آبادی میں تناسب مسلمانوں سے بھی کم ہے۔اس کے علاوہ سری لنکا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان فسادات یا تصادم کے ماضی میں بھی کوئی قابل ذکر واقعات نہیں ملتے۔
2014ء ا ور گزشتہ برس فروری میں مسلمان بستیوں پر اکثریتی فرقے سنہالی بدھوں کی طرف سے حملوں کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان حملوں میں مسلمانوں کی جائیدادوں کو وسیع نقصان پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں تامل بغاوت کے دوران میں تامل ٹائیگرز اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کی خبریں آتی رہی ہیں کیوں کہ سری لنکا کی خانہ جنگی میں مسلمانوں نے تامل باغیوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سری لنکا میں بسنے والے مسلمانوں کا تعلق زیادہ تر کاروباری اور تجارتی پیشوں سے ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو ملک میں برسوں سے جاری تامل سنہالی چپقلش سے دور رکھا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی ایک انتہا پسند تنظیم کی موجودگی ا ور دہشت گردی کے ہولناک واقعات میں اس تنظیم کا ملوث ہونا ایک ناقابل یقین واقع معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم سری لنکا کے جغرافیائی محل وقوع کا جائزہ لیں اور اس تناظر میں بحرہند کے خطے میں گزشتہ چند برسوں میں ہونے والے اہم واقعات کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کچھ طاقتیں دہشت گردی کے ذریعے اس اہم خطے کو عدم استحکام کا نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جن کے اس خطے سے وابستہ صدیوں پرانے مفادات خطرے میں پڑتے جارہے ہیں۔ ویسے تو بحرہند اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع اور خدوخال کی وجہ سے زمانہ قدیم سے ہی اہم تجارتی‘ بحری اور سیاسی کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے‘ مگر پندرہویں صدی کے آخر اور سولہویں صدی کے آغاز میں جب یورپی اقوام نے اس خطے میں قدم رکھا تو بحرہند کے علاقے کی تاریخ کا ایک نیا اور جدید دور شروع ہوا۔ اس دور میں یورپ کی مختلف اقوام نے جن میں پرتگیزی‘ ولندیزی‘ فرانسیسی اور انگریز شامل تھے‘ نے بحرہند کی انتہائی نفع بخش تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس پر اپنی سیادت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس مسابقت میں انگریز بالآخر کامیاب رہے اور انہوں نے نہ صرف بحرہند کی تجارت کو دوسری اقوام سے چھین لیا بلکہ ہندوستان پر بھی قبضہ کر لیا۔ انگریزوں کی اس کامیاب حکمت عملی میں سری لنکا (اُس وقت اس کا نام سیلون تھا) کے جغرافیائی محل وقوع نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے اس جزیرے کو ولندیزیوں سے چھینا تھا اور ہندوستان پر بالادستی کے قیام کی کشمکش میں انہوں نے اسے ایک بحری اڈے کی حیثیت سے فرانسیسیوں کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا۔ تقریباً دو سو برس تک انگریزوں نے بحر ہند پر اپنا تسلط جمائے رکھا۔ اسے مزید مضبوط بنانے اور بحرہند میں مشرق یا مغرب کی جانب سے کسی اور‘ مخالف قوت کی دراندازی روکنے کے لیے انہوں نے سنگاپورا ور عدن میں مضبوط بحری اڈے قائم کئے۔ بحرہند پر انگریزوں کا تسلط اس قدر مضبوط تھا کہ اسے ''برٹش لیک‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور 1960 ء کی دہائی میں جب برطانیہ نے نہرسویز کے مشرق میں واقع اپنی تمام مقبوضات کو ختم کرنے اور فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا تو اس سے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہوا جسے پُر کرنے کے لیے امریکہ نے جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید سے اپنا ساتواں بحری بیڑا داخل کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے بحرین‘ قطر اور بحرہند کے عین وسط میں واقع مجمع الجزائر‘ ڈیاگوگارشیا میں بحری اور فضائی اڈے قائم کر لئے۔
1974ء میں ویت نام سے انخلا کے بعد امریکہ نے اپنی تمام تر توجہ مشرق وسطیٰ‘ خلیج فارس اور بحرہند میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے پر مرکوز کئے رکھی ہے اور اس پالیسی کا مقصد ان خطوں میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا تھا۔ 1990ء کے بعد سرد جنگ کے خاتمہ اور سابقہ سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد‘ امریکہ کو اب روس کی بجائے چین سے خطرہ ہے جس نے ون بیلٹ ون روڈ خصوصاً سی پیک کے ذریعے ان علاقوں میں اپنے تجارتی اور معاشی اثر و رسوخ کو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ بحرہند کی اس نئی صورت حال میں سری لنکا کے جغرافیائی محل وقوع کا بڑا اہم کردار ہے۔ کیونکہ یہ بحرہند کے عین وسط میں واقع ہے اور چین کا میری ٹائم سلک روٹ‘ جو کہ ون بیلٹ اور ون روڈ کا حصہ ہے‘ اس کے قریب سے گزرتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی سیاسی اور سٹریٹجک صورت حال میں مماثلت بڑھتی جا رہی ہے۔ جس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ کو جنگ‘ تشدد‘ دہشت گردی اور محاذ آرائی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے‘ اس طرح جنوبی ایشیا کو بھی کشیدگی‘ انتشار اور دہشت گردی کے ذریعے عدم ا ستحکام کا شکار بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ سری لنکا میں دہشت گردی کے واقعات اس گہری سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ بحرہند کے عین وسط میں واقع ہونے کے علاوہ صرف چند برس پہلے ایک طویل خانہ جنگی سے باہر آیا ہے۔