چین کے دورے سے وطن واپسی پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ کشمیر کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ اٹھانے پر غور کر رہا ہے اور اس سلسلے میں چین نے پاکستان کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ بعد ازاں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا‘ جس کے مطابق درخواست دی گئی اور امکان یہ ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک اجلاس ہو چکا ہو گا۔چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور باقی چار مستقل رکن ممالک یعنی امریکہ‘ روس‘ برطانیہ اور فرانس کی طرح ویٹو پاور کا حامل ہے‘ اس لئے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث کے دوران باقی ارکان کی رائے متعین کر نے میں چین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے‘ لیکن چین کے علاوہ سلامتی کونسل کے باقی چار اراکین کا کردار بھی برابر اہمیت کا حامل ہے‘ اس لئے کہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے کسی بھی مسئلے پر ایک مؤثراور نتیجہ خیز اقدام یا فیصلے کے لیے کونسل کے پانچوں ارکان کا متفق ہونا ضروری ہے ورنہ سلامتی کونسل کی جانب سے کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی۔
اب تک جو بیانات سامنے آئے ہیں‘ اُن کے مطابق روس اور امریکہ کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ تسلیم کرتے ہیں مگر دونوں چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اس مسئلے کو دو طرفہ بنیادوں پر پر امن طریقے اور باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کریں۔ مثلاً روس کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے حال ہی میں ماسکو میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو چاہئے کہ وہ 1972ء کے شملہ معاہدے اور 1999ء کے اعلانِ لاہور کے مطابق اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں۔ شملہ معاہدہ ‘جس پر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کئے تھے‘ کے مطابق پاکستان اور بھارت نے طے کیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ مذاکرات یا کسی اور طریقے سے‘ جس پر دونوں فریق متفق ہوں‘ حل کریں گے‘ اس طرح اعلانِ لاہور جو کہ فروری 1999ء میں بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور میں اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد جاری کیا گیا تھا‘ میں بھی اس اصول کو تسلیم کیا گیا تھا۔ پاکستان کے ایک سابق سیکرٹری خارجہ نیاز اے نائیک کے مطابق لاہور میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر مفاہمت ہو گئی تھی اور اسی سلسلے میں ایک معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کیلئے اُس سال ستمبر میں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق ہو گیا تھا مگر مئی 1999ء میں کارگل کی لڑائی کی وجہ سے یہ مفاہمت آگے نہ بڑھ سکی۔
اعلانِ لاہور میں بیان کردہ فریم ورک کو اب بھی پاکستان اور بھارت کی حکومتیں تسلیم کرتی ہیں اور اس کی بنیاد پر 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت باقی متنازعہ امور کے حل کیلئے امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ روسی وزارتِ خارجہ کے بیان میں پاکستان اور بھارت پر شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے مطابق کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے علاوہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے پر بھی زور دیا گیا ہے اور یہ پیغام دونوں ملکوں کے لیے ہے۔ امریکی مؤقف کو بیان کرتے ہوئے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن اورٹاگس نے دو باتیں کہی ہیں‘ایک یہ کہ کشمیر پر امریکی پالیسی وہی ہے‘ جو پہلے تھی‘ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور دوسری یہ کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کے پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ پہلی بات کی روشنی میں کشمیر پر امریکہ کا مؤقف جس طرح واضح ہوتا ہے‘ اس کے مطابق امریکہ کشمیر کو بدستور ایک متنازعہ اور حل طلب مسئلہ سمجھتا ہے جس کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں کو باہمی مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اس طرح روس اور امریکہ کا مؤقف یکساں ہے‘ یعنی دونوں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی بجائے پاک‘ بھارت دو طرفہ اور براہِ راست مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامی ہیں‘ اس لیے اگر پاکستان کی کوشش سے مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بحث کرنے کیلئے سلامتی کونسل کے بلائے گئے اجلاس میں زیادہ سے زیادہ متفقہ قرارداد یہی آ سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت تحمل سے کام لیں‘ حالات کو مزید خراب ہونے سے روکیں اور اس مسئلے کو براہ راست دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کسی مؤثر اقدام یا قرارداد کی امید رکھتا ہے ‘ تو اسے اپنا کیس پیش کرنے سے قبل پانچوں ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ کہا ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنا قانونی آپشن بھی استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے۔ یہ ایک اہم اور خوش آئند اقدام ہوگا‘ کیونکہ پاکستان نے اب تک کشمیر پر قانونی آپشن استعمال کرنے پر پوری توجہ نہیں دی‘ حالانکہ قانونی لحاظ سے‘ خواہ اسے بین الاقوامی قانونی کے فریم ورک میں دیکھیں یا سٹیٹ لا کے نقطۂ نظر سے ‘ پاکستان کا مؤقف بہت مضبوط ہے۔ اگر اس آپشن کواستعمال کیا جائے تو کشمیر پر بھارت کے مؤقف خصوصاً مودی حکومت کے حالیہ اقدامات کو دنیا کے سامنے مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ 1948ء میںجب بھارت خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا‘ تو اقوام متحدہ نے پاکستان کے خلاف اس کی شکایت پر اپنے چارٹر کے باب سات کی بجائے‘ باب چھ کے تحت کارروائی کی تھی یعنی وہ مشہور قراردادیں منظور کی تھیں جن کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان اور بھارت کو ریاست جموں و کشمیر سے اپنی اپنی فوجیں نکالنے اور کشمیری عوام کو ایک غیر جانبدار استصواب کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے کہا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب سات کے تحت اُسی صورت کارروائی کی جاتی ہے‘ جب ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے جبکہ باب چھ تنازعات کو پُر امن طور پر حل کرنے کیلئے مختلف طریقوں پر مبنی دفعات پر مشتمل ہے۔ ان دفعات میں براہ راست بات چیت‘ مصالحت اور ثالثی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے شروع ہی سے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ کے طور پر تسلیم کیا ہے اور بھارت نے ان قراردادوں کو مان کر اقوام متحدہ کے مؤقف سے اتفاق کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون بلکہ عام قانون کے تحت کسی تنازعہ میں کوئی فریق یک طرفہ طور پر صورت حال تبدیل نہیں کر سکتا‘ اگر کرے گا تو قانون کی نظر میں اُسے غاصب اور جارح قرار دیا جائے گا۔ اس صورت میں غاصب قوت کے کسی اقدام کو قانون کے مطابق جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کیا ہے۔ اس طرح ریاست جموں و کشمیر میں بین الاقوامی قانون کی نظر میں بھارت کی حیثیت ایک غاصب اور جارح ملک کی ہے اور جنیوا کنونشن کے قوانین و ضوابط کے مطابق کوئی ملک کسی علاقے پر جارحیت کے ذریعے قبضے کے دوران وہاں ایسی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتاجس کے نتیجے میں وہاں کی آبادی کا تناسب خراب ہو جائے‘ یعنی بھارت نے آرٹیکل 35-A کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں باہر سے ہندو آبادی کو بسانے کا جو راستہ ہموار کیاہے‘ وہ بین الاقوامی قانون کی نظر میں ناقابلِ قبول ہوگا۔ اسی طرح مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے ریاست جموں و کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کرنے کا جو اقدام کیا ہے‘ وہ خود بھارتی آئین کی نظر میں غیر آئینی ہے کیونکہ آرٹیکل 370 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل یا منسوخ کرنے کے لیے ریاست جموں و کشمیر کی حکومت اور آئین ساز اسمبلی کی پیشگی منظوری ضروری ہے۔ اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر میں نہ تو ایک منتخب حکومت قائم ہے اور نہ آئین ساز اسمبلی موجود ہے‘ بلکہ گورنر راج کا نفاذ ہے‘اور صدر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی رضا مندی نہیں دے سکتا۔ یہ قانونی نکتہ بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے‘ اور اس کی بنیاد پر مودی حکومت کے اس اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ خود بھارتی سپریم کورٹ آج سے چار سال قبل ایک فیصلے میں آرٹیکل 370 کو باقاعدہ طور پر بھارتی آئین کا حصہ قرار دے چکی ہے‘ جسے تبدیل کرنے کے لیے اسی قانونی طریقہ کار کو استعمال کرنا ضروری ہے جو بھارتی آئین میں ترمیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘ لیکن مودی حکومت نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس لیے مودی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں کی نظر میں کشمیر میں حالیہ اقدام کی قانونی حیثیت بہت کمزور ہے۔