مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیلئے جمعہ 16 اگست کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا تھا‘ جس کی حمایت چین نے کی تھی۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس کو پاکستان اپنی اور کشمیریوں کی اور ایک اہم سفارتی فتح قرار دے رہا ہے کیونکہ بھارت نے اس اجلاس کو رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ اس کے علاوہ اس اجلاس کا انعقاد‘ اور اجلاس میں رکن ممالک کی طرف سے کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر تشویش کا اظہار اس حقیقت کی غماضی کرتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔ اجلاس میں رکن ممالک کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو احتیاط سے کام لینے اور ریاست میں کسی بھی یکطرفہ اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ یہاں تک تو معاملات پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے تسلی بخش اور باعث اطمینان ہیں‘ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نہیں بلکہ غیر رسمی اجلاس تھا اور بند کمرے میں ہوا تھا۔ اجلاس کے بعد کوئی باضابطہ اعلان جاری نہیں کیا گیا‘ نہ ہی چین کے نمائندے کے علاوہ کونسل کے باقی چار مستقل اراکین کے نمائندوں میں سے کسی نے اجلاس سے باہر اخباری نمائندوں سے بات کی۔ اجلاس کی کارروائی کے بارے میں جو خبریں میڈیا میں چل رہی ہیں، وہ وہی ہیں جو چین کے مندوب ژانگ جُن نے باہر آ کر اخباری نمائندوں کو بتائیں۔ اگر چینی نمائندے اخباری نمائندوں سے یہ باتیں نہ کرتے تو دنیا کو یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ اجلاس میں کیا کیا باتیں کہی گئیں؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے جہاں یہ حقیقت ثابت ہوئی ہے کہ بھارت کے لاکھ جتن کے باوجود مسئلہ کشمیر ابھی تک ایک بین الاقوامی تنازعہ کی حیثیت سے زندہ ہے، وہاں پاکستان کے لیے بھی یہ اجلاس اور اس کی کارروائی ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ کونسل کے تمام اراکین نے کشمیر کو ایک بین الاقوامی تنازعہ قرار دینے اور اس کے حل پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان پُرامن طور پر دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر زور دیا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے کشمیر کے مسئلے پر اب تک جو سب سے اہم پیش رفت ہوئی‘ وہ عالمی سطح پر ابھرنے والی یہ متفقہ رائے ہے کہ کشمیر جنوبی ایشیا میں امن کی کنجی ہے اور اس کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مگر عالمی برادری کی اس وقت ترجیح پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور تعلقات کو معمول پر لانا ہے کیونکہ کشیدگی کے جاری رہنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ کشمیر کے موجودہ بحران کے موقعہ پر امریکہ اور روس کے علاوہ چین نے بھی جو بیانات جاری کیے، ان سے یہ حقیقت واضح طور پر آشکار ہو جاتی ہے کہ دنیا مسئلہ کشمیر کے حل کی خواہشمند ہے‘ مگر چاہتی ہے کہ باہمی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اسے پاکستان اور بھارت مل کر حل کریں۔
عالمی برادری کی طرف سے فوری طور پر پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور تعلقات کو معمول پر لانے پر اصرار کی تین بڑی وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ حالات کشیدہ رہنے سے دونوں ملکوں میں تصادم کا خطرہ نہ صرف موجود رہتا ہے بلکہ اس میں اضافے کا امکان ہے۔ دوسری‘ دو طرفہ مذاکرات ایک ایسا فریم ورک ہے جس پر پاکستان اور بھارت دونوں راضی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر فریم ورک مثلاً ثالثی یا مصالحت پر بھارت رضامند نہیں ہے۔ تیسری‘ پاکستان اور بھارت دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر ایک دیرینہ ہی نہیں بلکہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کوئی آپشن نہیں‘ اسی لئے اسے حل کرنے کیلئے مذاکرات کا ایک طویل اور صبرآزما عرصہ درکار ہوگا اور اس عمل کو بارآور بنانے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت پہلے باہمی کشیدگی کو کم کریں‘ تعلقات کو معمول پر لائیں اور باہمی اعتماد پیدا کریں تاکہ کشمیر پر ایک ایسے حل کی طرف قدم بقدم پیش رفت ہو سکے جو پاکستان اور بھارت ہی نہیں کشمیری عوام کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ مسئلہ کشمیر کے حل طلب اور پاک بھارت کشیدگی کے موجود رہنے سے دونوں ملکوں میں انتہا پسند لابی کو پاک بھارت تعلقات مزید کشیدہ بنانے کا موقعہ ملتا ہے۔ اس سے بچنے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بہترین راہ باہمی مذاکرات ہیں۔ اسی بنا پر عالمی برادری پاکستان اور بھارت کے درمیان 2004 میں شروع ہونے والے دو طرفہ مذاکراتی سلسلے کو بحال کرنے پر زور دیتی ہے‘ لیکن دو طرفہ مذاکرات کے اس سلسلے کو پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے معطل کر رکھا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اسے دوبارہ شروع کرنے کی تجویز تو کئی مرتبہ پیش کی جا چکی ہے؛ تاہم بھارت اسے دہشت گردی کے مسئلے سے نتھی کرکے اس سے پہلوتہی کرتا چلا آ رہا ہے۔ کشمیر کے موجودہ بحران کی وجہ سے بین الاقوامی برادری نے ایک دفعہ پھر پاکستان اور بھارت پر دو طرفہ مذاکرات کے سلسلے کو بحال کرنے پر زور دیا ہے مگر یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ سکیورٹی کونسل کی ویب سائٹ پر درج تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے کشمیر کو ایک بین الاقوامی تنازع قرار دے کر بھارت کے اس موقف کی نفی کردی ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی پارلیمنٹ نے مودی حکومت کے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کو ریاست کی بجائے یونین ٹیریٹری قرار دے کر دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو منظور کیا ہے۔ اس سے قبل دو دفعہ قراردادوں کے ذریعہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جا چکا ہے‘ مگر 2004 میں واجپائی حکومت نے پاکستان کے ساتھ کمپوزٹ ڈائیلاگ کے ذریعے پرامن مذاکرات کے سلسلے پر اتفاق کرکے خود بھارت کے اس موقف کی نفی کر دی تھی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کیونکہ کمپوزٹ ڈائیلاگ میں جن آٹھ معاملات پر پاک بھارت دو طرفہ مذاکرات کے سلسلے کا آغاز ہوا تھا ان میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا۔ اس کے تحت 2008 تک ہونے والے چار رائونڈز میں مختلف سطح پر کشمیر پر بھی پاکستانی اور بھارتی حکام نے بات چیت کی تھی۔ کشمیر پر پاکستانی درخواست پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے اس اہم مسئلے کے نہ صرف بنیادی خدوخال واضح ہو گئے ہیں بلکہ ان اصولوں کی ایک دفعہ پھر تجدید ہو گئی ہے جن کی بنیاد پر آج سے 71 برس قبل عالمی ادارے نے اس کے حل کیلئے دو اہم قراردادیں منظور کی تھیں۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ دوبارہ زندہ ہو کر عالمی سیاست کے افق پر نمودار ہوا ہے۔ اس اجلاس سے گزشتہ 71 برس میں ہونے والی عالمی سیاسی تبدیلیوں کا بھی عکس نظر آتا ہے۔ روس (سابقہ سوویت یونین)‘ جس کا وزن ہمیشہ بھارت کے پلڑے میں پڑتا تھا اور 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں سلامتی کونسل کی کشمیر پر قراردادیں اس کے ویٹو کا شکار ہو جاتی تھیں‘ نے سابقہ موقف سے ہٹ کر ایک متوازن پوزیشن اختیار کی ہے۔ اقوام متحدہ میں اس کے ڈپٹی مندوب نے جو بیان دیا‘ اس میں جنوبی ایشیا خصوصاً پاک بھارت تعلقات کے بارے میں روس کے نئے موقف کی جھلک نظر آتی ہے۔ مختلف ٹویٹس میں روسی نمائندے نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں امید ظاہر کی کہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات کو نہ صرف شملہ معاہدے‘ اعلان لاہور بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح اجلاس کے بعد چینی مندوب نے جو بیان دیا اور اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیجنگ میں چینی ہم منصب وانگ ژن سے ملاقات کے بعد چینی وزارت خارجہ نے جو بیان دیا تھا‘ اس میں بھی کشمیر پر بھارت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے مسئلے کو دو طرفہ بنیادوں مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ کافی عرصہ سے عالمی سیاسی افق پر ایک اہم مسئلے کی حیثیت سے نمایاں ہے لیکن سلامتی کونسل کے اجلاس میں زیر بحث آنے‘ اس پر رکن ممالک کی طرف سے تشویش کا اظہار کرنے اور اسے کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دینے سے اس مسئلے میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ اس سے پاکستان کے موقف کی تائید ہوئی ہے اور کشمیری عوام کو بہت بڑا حوصلہ ملا ہے کیونکہ جیسا کہ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے 50 سال کے بعد اقوام متحدہ کے ایوانوں میں کشمیریوں کی پہلی دفعہ آواز سنی گئی ہے۔