کیا افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کی جانب کوئی پیش رفت ہونے والی ہے؟ اس سوال کے پیدا ہونے کا جواز یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ملک کے ایک سابق سفیر محمد صادق کو نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مقرر کیا ہے۔ افغانستان کے معاملات میں پاکستان شروع سے ہی بھرپور کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے‘ مگر ایک خصوصی نمائندے کی تقرری پہلا موقع ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ فریضہ ایک ایسے سفارت کار کے حوالے کیا گیا ہے‘ جو چھ سال تک کابل میں پاکستان کا سفیر رہ چکا ہے۔ محمد صادق افغانستان کے پیچیدہ امور سے پوری طرح واقف ہیں‘ اور افغانستان میں قیام امن اور پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے مثبت اور تعمیری سوچ رکھتے ہیں۔ اسی اپروچ کے تحت انہوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں غیر معمولی بہتری لانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ جب وہ افغانستان میں سفیر تھے تو اسلام آباد میں پاک افغان تعلقات پر ایک سیمینار میں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی زیرِ نگرانی کابل میں پاکستان کے سفارت خانے نے ہزاروں افغان باشندوں کو درپیش سب سے بڑی دقت یعنی تجارت‘ کاروبار‘ علاج معالجے‘ تعلیم اور روزگار کیلئے طورخم کے راستے سرحد کے آر پار جانے میں رکاوٹ دور کرکے پاکستان کیلئے افغانستان میں زبردست خیر سگالی پیدا کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف ان کی تعیناتی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اپنی تعیناتی کے فوراً بعد انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور پھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ہمراہ کابل کا ایک روزہ دورہ کیا۔ کابل میں انہوں نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ساتھ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ان کی تقرری کا اعلان کرتے وقت کہا گیا کہ ان کے مینڈیٹ میں پاک افغان تعلقات میں بہتری لانا اور 29 فروری کے معاہدے کی بنیاد پر افغانستان میں قیام امن کیلئے راہ ہموار کرنا ہے۔
ایمبیسیڈر محمد صادق نے بطور نمائندہ خصوصی یہ فریضہ اس وقت اپنے ہاتھ میں لیا ہے‘ جب طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدہ ہونے کے باوجود افغانستان میں طالبان اور سرکاری فوجوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ معاہدے میں جن شرائط پر اتفاق ہوا تھا‘ ان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ دستخط ہونے کے بعد دس دن کے اندر انٹرا افغان ڈائیلاگ کا انعقاد ہو گا‘ مگر ساڑھے تین ماہ گزر چکے ہیں‘ لیکن انٹرا افغان ڈائیلاگ کا دور دور تک نشان نہیں۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات پہلے سے زیادہ مخدوش ہیں۔ فریقین کے مابین بدگمانی‘ شکوک و شبہات اور شکوے شکایات بدستور موجود ہیں۔
چند برس پیشتر افغانستان پاکستانی برآمدات کی سب سے محفوظ منڈی تھا اور دو طرفہ تجارت کا حجم دو‘ اڑھائی بلین ڈالر تھا‘ لیکن اب یہ گھٹ کر چند سو ملین ڈالر رہ گیا ہے۔ اب افغانستان کی برآمدی تجارت زیادہ تر ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس طرح خشکی سے گھرے ہوئے ایک ملک کی حیثیت سے افغانستان کو سمندر پار مال بھیجنے کے لئے پاکستان پر جو انحصار کرنا پڑتا تھا‘ اس میں خاصی کمی آئی ہے‘ اور ظاہر ہے کہ اس کے سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ افغانستان کی برآمدی تجارت کے لئے اگرچہ چاہ بہار کی بندر گاہ کراچی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی اور کراچی کے راستے افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ اب بھی جاری ہے‘ مگر ناردرن کوریڈور اور چاہ بہار کے استعمال سے پاکستان پر افغانستان کے انحصار میں نمایاں کمی آئی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں بہتری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر پاکستان کی جانب سے لگائی جانے والی آہنی تار کی باڑ ہے۔ اس کی تنصیب کا آغا ز2016 میں ہوا تھا‘ اور تاحال اس کے 70فیصد حصے پر کام مکمل ہوا ہے‘ باقی پر کام جاری ہے‘ لیکن ان چار برسوں میں اس باڑ کی تعمیر پر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی دستوں کے درمیان متعدد بار مسلح تصادم ہو چکے ہیں۔ پاکستان اس باڑ کو افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کے در آنے کو روکنے کیلئے ضروری سمجھتا ہے‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب سے باڑ تعمیر ہوئی ہے‘ پاکستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے‘ لیکن افغانستان میں نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی اس باڑ کی تعمیر پر سخت ناراض ہیں۔ افغان حکومت کے نزدیک پاکستان اس باڑ کی تعمیر سے افغانستان کی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر 1893 کی ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک مستقل اور قانونی بین الاقوامی سرحد کے طور پر قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ افغانستان کے نزدیک یہ سرحد متنازعہ ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو باڑ کی تعمیر سے قبل افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان داخل ہونے کی جو انہیں بلا روک ٹوک آزادی تھی‘ وہ محدود ہو گئی ہے۔سرحد کے آر پار آنے جانے والوں میں دہشت گرد اور سمگلروں کی بھی ایک خاصی بڑی تعداد ہوگی‘ مگر پاک افغان سرحد کو ریگولیٹ کرنے اور باڑ کی تعمیر سے ہزاروں ایسے افغان اور پاکستانی بھی متاثر ہوئے ہیں‘ جو روزانہ محنت مزدوری‘ کاروبار‘ علاج اور تعلیم کیلئے سرحد پار کرتے تھے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاک افغان سرحد کے بار بار بند ہونے سے ناصرف ان لوگوں میں اس کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی بھی بڑھی ہے۔ نمائندہ خصوصی ایمبیسیڈر محمد صادق کو اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہو گا‘ جو پاکستان اور افغانستان‘ دونوں کیلئے قابلِ قبول ہو۔
طالبان اور سرکاری فوجوں کے درمیان مسلح تصادم کا بدستور جاری رہنا ایک اور بڑا مسئلہ ہے‘ جسے حل کئے بغیر افغانستان میں امن اور مصالحت کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکتی ۔ 29 فروری کے معاہدے کی ایک اہم مگر غیراعلانیہ شق یہ بھی تھی کہ معاہدے پر دستخط کے بعد طالبان سرکاری فوجوں پر حملوں کی شدت میں کمی کر دیں گے‘ مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ الٹا حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس پر ناصرف صدر اشرف غنی کی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا بلکہ امریکہ نے طالبان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے طالبان کے فوجی ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بھی بنایا۔ افغانستان میں امن اور مصالحت کا عمل اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا‘ جب تک فریقین جنگ بندی پر متفق نہیں ہوتے‘ لیکن طالبان اس تجویز کو سختی سے مسترد کر چکے ہیں‘ حالانکہ امریکہ‘ پاکستان اور قطر کے علاوہ افغانستان کے مسئلے سے وابستہ باقی تمام ممالک اس پر زور دے رہے ہیں۔ ایمبیسیڈر محمد صادق کی تعیناتی اور ان کے دورۂ کابل سے قبل امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں‘ اسلام آباد میں پاکستانی حکام اور کابل میں افغان حکومت کے اراکین سے ملاقات کی تھی۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ان ملاقاتوں میں ایک عارضی اور مختصر جنگ بندی کے عوض طالبان کو انٹرا افغان ڈائیلاگ میں کچھ مزید رعایات دینے پر اتفاق ہوا‘ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ 29 فروری کا معاہدہ پہلے ہی سخت تنقید کا نشانہ چلا آ رہا ہے‘ کیونکہ اس میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی جان چھڑانے کے لئے طالبان کو ضرورت سے زیادہ رعایات دے ڈالی ہیں۔ اب اگر افغانستان میں برائے نام امن کی خاطر طالبان کو افغان حکومت اور سول سوسائٹی کی قیمت پر مزید رعایات دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ افغانستان میں مستقل امن نہیں بلکہ ایک نئی جنگ کا پیغام ہو گا۔ صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کے اراکین بارہا کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو واک اوور نہیں دیا جائے گا۔ انہیں افغان حکومت سے معاملات طے کرنا پڑیں گے‘ اور افغانستان میں نئی سماجی اور ثقافتی حقیقتوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔