پاکستان کی جانب سے چند روز قبل افغانستان کی واہگہ بارڈر کے راستے بھارت کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی کا چین نے خیر مقدم کیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے ایک سرکاری بیان میں پاکستان کے اس اقدام کو سراہا اور کہا ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ علاقائی تجارت میں اضافہ بھی ہو گا۔ علاوہ ازیں اس طرح نہ صرف خطے کے امن کو استحکام ملے گا بلکہ علاقائی تعاون اور ترقی کے ذریعے پاکستان‘ افغانستان اور خطے کے دیگر ملکوں کے عوام کے لئے خوش حالی کے نئے در وا ہوں گے۔ چینی بیان میں پاکستان اور چین کے مابین اقتصادی راہ داری یعنی سی پیک کا خاص طور پر ذکر کیا گیا‘ اور امید ظاہر کی گئی کہ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ بحال ہونے کے بعد افغانستان بھی سی پیک میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا اور اس طرح سی پیک سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ چین کی جانب سے افغانستان کی پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی پر اس مثبت بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر عمل درآمد صرف پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات کے لئے ہی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ جنوبی اور وسطی ایشیا کے خطوں کے سٹریٹیجک مفادات بھی وابستہ ہیں اور افغانستان کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے شروع سے ہی افغانستان کو سی پیک میں شامل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں اسے پاکستان کی پوری حمایت حاصل رہی ہے‘ اور اس مقصد کے لئے چین‘ پاکستان اور افغانستان پر مشتمل جو سہ فریقی میکنزم قائم کیا گیا تھا‘ اس میں پاکستان نے ہمیشہ سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کے منصوبے کی پُر زور حمایت کی۔ اسی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سی پیک میں پاکستان کے ہمراہ افغانستان کی شرکت کو پوری طرح بار آور بنانے کے لئے چین بھرپور مدد دینے کو تیار ہے۔ افغانستان کی شمولیت سے سی پیک میں وسطی ایشیا کی ریاستوں کی شمولیت کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ اس طرح دنیا کے دو بڑے خطوں یعنی جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک علاقائی تعاون برائے ترقی اور تجارت کے فروغ کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا پہلے ہی اظہار کر چکی ہیں۔
اب ایران نے بھی سی پیک میں دل چسپی کا اظہار کرتے ہوئے اس میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے علاوہ نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا پہلے ہی سی پیک سے وابستہ ہو چکے ہیں‘ بلکہ ان ممالک نے چین کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے اپنے ہاں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے متعدد منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں۔ صرف بھارت وہ واحد ملک ہے جس نے ابھی تک نہ صرف اس وسیع منصوبے میں شرکت نہیں کی بلکہ اس پر اپنے تحفظات کا مسلسل اظہار کیا ہے‘ حالانکہ چین نے بھارت کو اس میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں۔ مئی 2017 میں چین نے اپنے ہاں بی آر آئی (The Belt and Road Initiative) سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے بھارت کو بھی مدعو کیا تھا مگر بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی‘ جو اس وقت بھی وزیر اعظم تھے‘ نے اس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ لداخ میں چین بھارت سرحدی تنازع پر دونوں ملکوں کے مابین جون میں جو جھڑپ ہوئی تھی‘ اس کے بعد بھارت کی سی پیک میں شمولیت کا امکان اور بھی کم ہو گیا ہے؛ اگرچہ سی پیک میں بھارت کی عدم شمولیت سے اس منصوبے کے مقاصد کے مکمل حصول میں مشکل پیش آئے گی؛ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ چین اب بھارت کی شمولیت کے بغیر بھی منصوبے کو آگے بڑھانے کا پکا فیصلہ کر چکا ہے۔ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ سہولت بحال ہونے پر چین نے جو مثبت بیان جاری کیا ہے‘ وہ اس کی اس نئی سوچ اور پالیسی کا مظہر ہے۔ اگرچہ چین نے سی پیک کے دروازے بھارت پر بند نہیں کئے بلکہ اسے سی پیک میں شامل کرنے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا‘ لیکن بھارت کے حالیہ رویے اور خصوصاً صدر ٹرمپ کی مخاصمانہ پالیسی کی تائید کرتے ہوئے چین کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کے پیشِ نظر معلوم ہوتا ہے کہ چین نے سی پیک کی کامیابی کے لئے افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں پر زیادہ انحصار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چین کے اس فیصلے سے سی پیک کو بھارت کی شمولیت کے بغیر بھی یقینا تقویت ملے گی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے اس منصوبے کی رفتار میں جو کمی آ گئی تھی‘ افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کی شمولیت سے یہ رفتار پھر تیز ہو جائے گی‘ اس لئے کہ افغانستان کے راستے سی پیک کا حصہ بن کر وسطی ایشیاء کے ممالک‘ جو چاروں طرف سے خشکی سے گھرے ہوئے ہیں‘ کو بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کرنے کا ایک ایسا راستہ مل جائے گا‘ جس کے ذریعے تجارتی اشیا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کم از کم وقت صرف ہو گا اور فاصلہ بھی کم سے کم طے کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ اخراجات بھی دوسرے روٹس کی نسبت کم ہوں گے۔ اس کے علاوہ کشادہ اور جدید ترین سڑکوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر سے نہ صرف تجارت بلکہ سیاحت اور ثقافت کے شعبوں میں روابط کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ سہولت کے تناظر میں چین کی طرف سے سی پیک کو تقویت ملنے کے امکان پر چین کا فوکس دو لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تقریباً 19 برس کی طویل خانہ جنگی کے بعد افغانستان میں متحارب فریقوں کے درمیان قیام امن کی خاطر مذاکرات جلد ہونے جا رہے ہیں؛ اگرچہ ان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی افغان سمجھوتے کی توقع نہیں کی جا سکتی اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ مذاکرات طول پکڑیں گے اور اس دوران پُر تشدد واقعات بھی جاری رہ سکتے ہیں کیونکہ طالبان نے جنگ بندی کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے‘ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار حریفوں میں سے کوئی بھی اس جنگ کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان سے چونکہ امریکی افواج کو جلد از جلد نکالنے پر تلی ہوئی ہے‘ اس لئے طالبان اور افغان حکومت‘ دونوں کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ افغانستان میں امن اور مستقبل کے لئے آپس میں کسی سمجھوتے پر راضی ہو جائیں‘ ورنہ ملک کو پہلے سے بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ وہ ممالک بھی اپنا پورا وزن امن کے پلڑے میں ڈال دیں‘ جن کے قریبی مفادات ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان سے منسلک ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ایک سابق سفارت کار محمد صادق کا بطور 'نمائندہ خصوصی برائے افغانستان‘ تقرر اور چین کی طرف سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت کی بحالی کا خیر مقدم ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں متحارب گروہوں کے سامنے امن اور سمجھوتے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ امن اور سمجھوتے کے امکانات روشن ہونے کی وجہ سے ہر وہ ملک‘ جس کے قومی مفادات ایک پُر امن اور مستحکم افغانستان سے وابستہ ہیں‘ آنے والے دنوں کے لئے اپنی اپنی پوزیشن کا تعین کر رہا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت بحال کر کے بلکہ پاک افغان سرحد کے آر پار تجارت اور آمد و رفت کو کئی مقامات سے اجازت دے کر اپنی نئی سوچ اور پالیسی کا اظہار کر دیا ہے۔ چین نے بھی افغانستان اور اس سے پرے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک سی پیک کا دائرہ پھیلانے کا ارادہ ظاہر کر کے خطے کی جیو پولیٹکس میں فعال کردار ادا کرنے کا واضح اشارہ دے دیا ہے۔