آسٹرلز (Austerlitz) کی لڑائی میں نپولین بونا پارٹ کا ایک مقولہ بہت مشہور ہوا تھا۔ وہ مقولہ یہ ہے: جب دشمن غلطی پہ غلطی کر رہا ہو تو اسے مت ٹوکو (Don,t interrupt the enemy when he is making mistakes ) حزب مخالف کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے پر پاکستان مسلم لیگ نون خصوصاً اس کے صدر شہباز شریف نے خاموشی کا جو رویہ اپنا رکھا ہے‘ وہ اس مقولے پر پورا اترتا محسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گزشتہ ایک ماہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ شہباز شریف جاتی امرا سے باہر نکلیں اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کریں۔ بلاول بھٹو سے زیادہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس بات کے خواہش مند ہیں کہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی بنا پر پاکستان مسلم لیگ نون حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے میدان میں اترے۔ پچھلے دنوں انہوں نے بلاول بھٹو سے ملاقات کی تھی‘ اور اب وہ شہباز شریف کے ساتھ مل کر انہیں میدان میں اترنے کی ترغیب دینا چاہتے ہیں؛ تاہم محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف اس پر آمادہ نہیں ہوں گے کیونکہ ایک تو ابھی ان کی صحت اجازت نہیں دیتی‘ دوسرے انہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ حکومت داخلی اور خارجی مسائل کے گرداب میں پھنس چکی ہے اور اس گرداب سے نکلنے کی ہر کوشش کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف انتخابات سے پہلے قوم سے کئے گئے وعدے ہیں‘ دوسری طرف حکومت کی گزشتہ دو برسوں کی کارکردگی ہے۔ دو سال قبل حکومت سنبھالنے کے موقع پر حکمران پارٹی کی صفوں میں جو اتحاد تھا اور خود عمران خان صاحب کے چہرے سے جو امید اور خود اعتمادی جھلکتی تھی‘ وہ اب کہیں نظر نہیں آتی۔ اس لئے حکومت نے گزشتہ دو برسوں کے دوران معیشت کی گاڑی کو چلانے اور نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لئے جو بھی اقدامات کئے‘ ان میں سے کوئی بھی سرے نہ چڑھ سکا۔ معاشی ترقی کے اہم پیمانوں مثلاً جی ڈی پی میں سال کے حساب سے اضافہ مہنگائی اور افراط زر کی سطح‘ مالی خسارہ‘ روزگار کی صورتحال کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کی معیشت کا حال جتنا خراب اب ہے‘ اتنا کبھی نہیں رہا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ادوارِ حکومت میں سب سے زیادہ تنقید اس بات پر کی جاتی تھی کہ حکومت اقربا پروری‘ قانون شکنی اور رشوت خوری پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ آج ملک کے مختلف حصوں‘ جن میں پنجاب بھی شامل ہے‘ میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے۔ اس پر قابو پانے کیلئے صوبے میں اعلیٰ سطح پر پے در پے انتظامی تبدیلیاں کی گئیں‘ لیکن صورتحال نہیں سنبھلی‘ بلکہ پہلے سے زیادہ خراب ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات اور ہیں اور ایک واضح سمت متعین نہیں۔ پی ٹی آئی نے تبدیلی کے نام پر عوام سے ووٹ حاصل کئے تھے‘ لیکن عوام پوچھتے ہیں کہ جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا‘ وہ کہاں ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ درست سمت میں جا رہی ہے اور اپنی ڈگر پر مصر ہے۔ اگر صورتحال برقرار رہی تو شہباز شریف کا حساب درست ہے کہ یہ حکومت خود اپنی ہی حماقتوں اور غلطیوں کے بوجھ کے نیچے دب کر رہ جائے گی۔ اس وقت داخلی اور خارجی محاذ پر کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں حکومت کسی نمایاں کامیابی کی دعویٰ کر سکے۔ بلکہ بیشتر معاملات میں یا تو جمود کی صورت حال ہے یا حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کی طرزِ حکمرانی میں لاکھ سقم سہی‘ مگر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے یکسوئی سے کام لے کر اور سکیورٹی فورسز کے تعاون سے دہشت گردی پر تقریباً قابو پا لیا تھا‘ مگر موجودہ حکومت کے دور میں نہ صرف کے پی کے بلکہ بلوچستان اور سندھ میں بھی دہشت گردی نئے سرے سے سر اٹھا رہی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت کو اس سنگین صورتحال کا ذرہ برابر احساس نہیں کیونکہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے جس مربوط اور ہمہ گیر حکمتِ عملی اور دور اندیشی کی ضرورت ہے‘ وہ ناپید ہے۔ ذرا سوچئے اگر بلوچستان میں ایک ایسی انتظامیہ برسرِ اقتدار ہو‘ جس کا صوبے کے دور دراز علاقوں سے کوئی رابطہ نہ ہو اور اس کا تمام تر انحصار سکیورٹی فورسز پر ہو تو دہشت گردی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ سندھ اور پنجاب کے بعد بلوچستان آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل کی بنا پر سب سے امیر صوبہ ہے۔ اگر یہاں بھی سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کی ''زبردستی گمشدگی‘‘ اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوں گے تو امن و امان کی صورتحال کیسے اطمینان بخش بنائی جا سکے گی؟ 2013 سے 2018 تک بھی سندھ اور مرکز میں دو مختلف سیاسی جماعتوں بالترتیب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں تھیں لیکن اس عرصے کے دوران مرکز اور صوبہ سندھ میں گہرا تعاون نہ سہی مگر نمایاں کشیدگی بھی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے کراچی میں امن و امان کی ابتر صورت حال پر قابو پایا لیا گیا تھا اور روشنیوں کے شہر کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں‘ لیکن موجودہ حکومت کے قائم ہوتے ہی سندھ اور مرکز کے مابین فاصلے بڑھنا شروع ہو گئے۔ اس وقت شاید ہی کوئی ایسا قومی مسئلہ ہو جس پر سندھ اور مرکز کا نقطہ نظر یکساں ہو۔ ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم ملک کے دوسرے بڑے صوبے کا دورہ کرے اور اس کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کئے بغیر واپس آ جائے‘ تو اس سے وفاقیت کی بنیادیں کیسے کمزور نہ ہوں گی؟ وفاق اور وفاقی اکائیوں کے درمیان تنائو کی ایسی صورتحال کی مثال ملک کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپے عناصر کو اس سے زیادہ سنہری موقع نہیں مل سکتا۔ خارجہ تعلقات کے محاذ پر موجودہ حکومت کی کارکردگی اور بھی مایوس کن ہے۔ کشمیر کی الگ اور جداگانہ حیثیت ختم کرکے اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس پر مکمل لاک ڈائون نافذ کرنے کے بھارتی اقدام کو ایک سال ہونے کو ہے لیکن پاکستان کی سفارتی کوششیں اس صورتحال میں ذرہ بھر بھی تبدیل لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہ سچ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ایک سے زیادہ دفعہ وادیٔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں‘ اور عالمی میڈیا میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانوں کے بنیادی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہو چکی ہیں‘ مگر عملی طور پر اس سے کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟ وہاں اب بھی عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے اور معصوم نوجوانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ ابھی اس مسئلے پر پاکستان اقوامِ متحدہ تو دور کی بات مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی بھرپور حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگر پاکستان میں داخلہ اور خارجہ محاذ پر کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو رہی تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے حصول کے لئے موجودہ حکومت کے پاس کوئی وژن نہیں ہے۔ پاکستان داخلی لحاظ سے اور بیرونی حوالوں سے بھی غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ ان نامساعد حالات سے قوم کو بحفاظت نکالنے کے لئے ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے‘ جو ماضی کی روش سے ہٹ کر انقلابی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہو‘ لیکن جیسا کہ لنن نے کہا تھا‘ انقلاب کے لئے انقلابی نظریے کی ضرورت ہوتی ہے‘ موجودہ حکومت کے پاس ایسی کوئی انقلابی سوچ یا نظریہ نظر نہیں آتا بلکہ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ موجودہ حکومت ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہے‘ سٹیئرنگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے‘ جن کے سامنے نہ کوئی واضح منزل ہے اور نہ کوئی روڈ میپ۔ ان حالات میں شہباز شریف اگر خاموش رہ کر اس گاڑی یعنی حکومت کے خود بخود collapse ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تو حق بجانب ہیں۔