آزاد اور خود مختار ریاستوں پر مشتمل موجودہ بین الاقوامی سیاسی نظام کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ حکومتی تبدیلی‘ خواہ اس کا ذریعہ پُر امن جمہوری انتخابات ہوں یا ماورا آئینی اقدام‘ اُس ملک کا خالصتاً اندرونی معاملہ ہوتا ہے‘ اور کسی دوسرے ملک کو اپنی پسندیدگی یا غیر پسندیدگی پر مبنی رائے دینے کا حق حاصل نہیں۔ لیکن ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر دیگر ممالک کی خصوصی توجہ اور دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں اور بعض امور کی وجہ سے ایسے ممالک کو ہر لمحہ قومی سلامتی کے ریڈار پر رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی چند ممالک میں بحرِ ہند کے عین وسط میں واقع جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا مگر جیو سٹریٹجک لحاظ سے انتہائی اہم ملک سری لنکا شامل بھی ہے۔ اس ملک میں حال ہی میں پارلیمانی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں موجود ہ وزیراعظم اور سابق صدر مہندرا راجا پاکسا اور ان کی اتحادی پارٹیوں نے تقریباً دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔ سری لنکا گزشتہ پانچ برس سے جس بحرانی دور سے گزر رہا تھا‘ اس کے پیش نظر بیشتر مبصرین مہندرا راجا پاکسا کی پارٹی کی جیت کی توقع رکھتے تھے‘ لیکن اتنی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے‘ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مہندرا راجا پاکسا جو 2005ئ سے 2015ء تک ملک کے صدر رہ چکے ہیں‘ نے قومی اسمبلی کی 225 میں سے 145 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ سیاسی مبصرین کی نظر میں پارلیمانی انتخابات کے یہ نتائج سری لنکا کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے اس لیے نہ صرف سری لنکا کے ہمسایہ ممالک بلکہ وہ ممالک جن کے قومی سلامتی کے مفادات بحرِ ہند اور ان کے اردگرد علاقوں سے وابستہ ہیں‘ سری لنکا میں اس سیاسی تبدیلی کا بنظرِ غور جائزہ لے رہے ہیں۔ جن ممالک کے لیے سری لنکا میں سیاسی تبدیلی سے سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہے‘ ان میں بھارت سرِفہرست ہے۔ کیونکہ مہندرا راجا پاکسا چین کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں سری لنکا اور چین کے درمیان اقتصادی شعبے میں قریبی تعاون پیدا ہو چکا تھا‘ اور سری لنکا نے چین کی مالی اور تکنیکی مدد سے انفراسٹرکچر کے کئی منصوبوں جن میں ایک ہوائی اڈا‘ ایک بندرگاہ اور شاہراہوں کی تعمیر تھی‘ کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ بھارت کو ان منصوبوں کی تعمیر کے ذریعے سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ پر تشویش ہے‘ کیونکہ اس کے خیال میں چین سری لنکا‘ جسے صرف چند کلو میٹر چوڑی پانی کی ایک پٹی بھارت سے جدا کرتی ہے‘ کو اپنے حلقۂ اثر میں لا کر‘ بھارت کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2015ء کے انتخابات میں جب مہندرا کو سری لنکن فریڈم پارٹی کے امیدوار متھیرا پالا سری سینا کے ہاتھوں انتخابات میں شکست ہوئی تو بھارت میں مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ کیوں کہ نئے صدر نے حلف اٹھاتے ہی اعلان کیا کہ ان کی حکومت چین کے ساتھ کئے گئے بعض معاہدوں پر نظر ثانی کرے گی۔ اس کے مقابلے میں صدر سری سینا کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی خواہش اس طرح بھی ظاہر ہوتی ہے کہ سری لنکا کے نئے صدر نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے بھارت کو چنا۔ اس دورے کے دوران ہی صدر سری سینا نے بھارت اور سری لنکا کے درمیان تجارت‘ زراعت اور سول نیوکلیئر شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کیلئے متعدد MOUs پر دستخط کئے۔ لیکن مہندرا راجا پاکساکی پارٹی کی حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی سے بھارت میں سری لنکا کے بارے میں امیدوں اور توقعات پر مایوسی کے بادل چھا گئے ہیں کیونکہ سابق صدر مہندرا نہ صرف چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی ہیں‘ بلکہ اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان متعدد‘ خصوصاً دفاع اور سلامتی جیسے شعبوں میں تعلقات کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ایک ایسے موقع پر جب سری لنکا تامل باغی تحریک کے آگے بے بس تھا‘ دنیا کا کوئی ملک اس کی مدد کو آنے کیلئے تیار نہ تھا اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ باغیوں کو مدد فراہم کر رہی تھی۔ پاکستان نے نہ صرف سٹریٹجی اور پالیسی‘ بلکہ ہتھیاروں کی صورت میں بھی صدر مہندرا کی حکومت کو امداد فراہم کر کے ایل ٹی ٹی کی بغاوت کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
مہندرا اس وقت ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں‘ مگر غالب گمان یہ ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی گوٹا بایا راجا پاکسا کی جگہ صدر کے عہدے پر متمکن ہو جائیں گے کیوں کہ سری لنکا کی 19 ویں آئینی ترمیم کی صورت میں اُن کے تیسری بار صدر منتخب ہونے کے راستے میں جو رکاوٹ ہے‘ اس کو حکومت بڑی آسانی کے ساتھ اب ہٹا سکتی ہے‘ کیوں کہ ان کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اسی آئینی ترمیم کو حذف کر کے مہندرا اپنے چھوٹے بھائی گوٹابایاراجا پاکسا کی جگہ صدر کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
سری لنکا کی موجودہ سیاسی صورت حال کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ہی خاندان یعنی راجا پاکسا سے تعلق رکھنے والے کم از کم پانچ افراد اس وقت اہم سیاسی عہدوں پر متمکن ہیں یا پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ مہندرا‘ جو اس سے قبل دو دفعہ وزیراعظم اور ایک دفعہ صدر رہ چکے ہیں‘ اب چوتھی دفعہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ چھوٹا بھائی گوٹابایا جو مہندرا کے صدارتی دور میں سیکرٹری دفاع تھا‘ صدر کے عہدے پر فائز ہے۔ سب سے بڑا بھائی پارلیمنٹ کا سپیکر ہے‘ اور ان تین بھائیوں میں سے دو کے بیٹے بھی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ اس لیے ملک کے سنجیدہ اور جمہوری حلقے ہی خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں سری لنکا میں نہ صرف راجا پاکسا فیملی کا راج قائم ہو جائے گا‘ بلکہ 19 ویں ترمیم‘ جس کے تحت صدر کے اختیارات کم کر کے‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار بنا دیا گیا تھا‘ کے خاتمے کی صورت میں سری لنکا میں ایک دفعہ پھر نیم صدارتی نظام قائم ہو جائے گا۔ حالانکہ 2015ء کے انتخابات میں مہندرا کی شکست اور سری سینا کی کامیابی کی بڑی وجہ اول الذکر کے ہاتھوں میں آئینی اختیارات کا ارتکاز تھا‘ جسے انہوں نے بے دریغ استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے اُن پر آمرانہ طرزِ عمل ‘بدعنوانی اور اقربا نوازی کے الزامات بھی عائد کئے گئے۔ مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ راجا پاکسا برادران ملک کی اکثریتی سنہالی بُدھسٹ آبادی میں بے حد مقبول ہیں۔ اس کی ایک وجہ سری لنکا میں تقریباً30 برسوں سے جاری تامل نسل کے لوگوں کی طرف سے مسلح بغاوت کو مکمل طور پر کچلنا ہے اور دوسری وجہ گزشتہ سال ایسٹر کے موقع پر سری لنکا میں گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر دہشت گرد حملوں‘ جن میں 269 افراد مارے گئے تھے‘ کے بعد خوف اور عدم تحفظ کی فضا ہے۔ بدھ مذہب کی پیروکار اکثریتی سنہالی آبادی کو یقین ہے کہ اس فضا میں صرف راجا پاکسا برادران ہی تحفظ فراہم کر سکتے ہیں‘ اس لیے انہوں نے حالیہ انتخابات میں اُن کے حق میں ووٹ دے دیا۔