چھ ماہ قبل جب کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پاکستان کے دروازے پر دستک دینا شروع کی‘ تو توقع پیدا ہو گئی تھی کہ قومی سیاست میں محاذ آرائی کی جگہ تعاون کی فضا پیدا ہو جائے گی۔ حکومت اور اپوزیشن آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے باہمی مفاہمت کا مظاہرہ کریں گی اور کم از کم اس وبا‘ جسے بنی نوع انسان کیلئے اس صدی کا سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے‘ کا مل کر مقابلہ کریں گی اور اس مقصد کے لئے ایک متفقہ اور ہمہ گیر لائحہ عمل تیار کریں گی لیکن گزشتہ چھ ماہ کے دوران قومی سیاسی افق پر جو منظر دیکھنے میں آیا ہے‘ وہ توقعات کے بالکل برعکس رہا ہے‘ حالانکہ ہمسایہ ملک بھارت میں جہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر گند اچھانے میں کسی طرح بھی پیچھے نہیں‘ وزیر اعظم نریندر مودی نے وبا کے خطرے کی گھنٹی بجتے ہی دارالحکومت دہلی میں تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا۔ جن رہنمائوں نے وزیر اعظم مودی کی دعوت پر اس اجلاس میں شرکت کی‘ ان میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ‘ دیوے گوڑا‘ سونیا گاندھی اور مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بینرجی بھی شامل تھیں۔ بھارت کے یہ سیاسی لیڈر وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی کی پالیسیوں کے سخت ناقدین میں شمار کئے جاتے ہیں‘ مگر حکومت نے قومی مفاد میں ان رہنمائوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لئے باہمی مشاورت کو ضروری سمجھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی وزیر اعظم نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے علاقائی سطح پر بھی مشترکہ کوششوں کو ضروری اور سود مند سمجھتے ہوئے ''سارک‘‘ سربراہوں کی ایک ویڈیو کانفرنس کا بھی اہتمام کر ڈالا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے وزیر اعظم عمران خان کو بھی دعوت دی گئی تھی‘ مگر خود شریک ہونے کے بجائے‘ انہوں نے اپنے (سابق) مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو پاکستان کی نمائندگی کرنے کی ہدایت کر دی۔
ان دو مثالوں کا یہاں تذکرہ کرنے کا مقصد دراصل مصیبت اور آفت کے وقت ہر سطح پر مشاورت اور تعاون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنا ہے‘ لیکن پاکستان میں باہمی دست و گریباں سیاسی پارٹیوں‘ جن میں سے کچھ حکومت اور کچھ اپوزیشن میں ہیں‘ نے عوام کی توقعات کے برعکس ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کی مہم جاری رکھی۔ اب جبکہ کورونا وائرس کی وبا کی شدت میں کمی واقع ہو رہی ہے‘ الزام تراشیوں کی اس مہم نے پہلے سے زیادہ زور پکڑ لیا ہے اور حالت یہ ہے کہ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان میں سے سچا کون ہے اور جھوٹا کون‘ مگر ایک حقیقت بالکل واضح ہے کہ حکومت نے اپنے وسائل اور معاونین خصوصی کی ایک فوج کی مدد سے اپوزیشن‘ خصوصاًپاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کی ایسی موثر مہم چلائی کہ دو سال کی بد انتظامیوں‘ نا اہلیوں اور بد حواسیوں کی وجہ سے عوامی مسائل کے جو انبارلگے ہوئے ہیں‘ وہ لوگوں کی نظروں سے وقتی طور پر اوجھل ہو گئے ہیں۔ عوام کی توجہ ایسے بے سروپا اور بیکار مفروضوں کی طرف لگا دی گئی ہے‘ جن کا ان کی حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں مثلاً مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کو لندن سے لایا جا رہا ہے یا نہیں‘ مسلم لیگ نون کا آئندہ قائد کون ہو گا؟ شہباز شریف یا مریم نواز؟ سابق صدر آصف علی زرداری جیل جائیں گے یا نہیں؟ اپوزیشن کی ان دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے کئی رہنما گزشتہ دو ڈھائی برسوں سے احتسابی ادارے کی گرفت میں ہیں اور مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
جہاں تک ان دونوں سیاسی جماعتوں کے اپنے مفاد کا تعلق ہے تو یقینا یہ مقدمات او ر سزائیں ان کے لئے اہمیت کی حامل ہیں اور وہ اسے احتساب کے بجائے سیاسی انتقام قرار دے رہی ہیں‘ مگر جہاں تک عوام کا تعلق ہے‘ ان کی دل چسپی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے کیونکہ عوام میں بھی یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ اس نام نہا د احتسابی عمل کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ احتسابی عدالت کے ایک جج کا ویڈیو سکینڈل اور خواجہ برادرز کی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے بعض مندرجات نے ادارے کی کریڈیبلٹی (Credibility) کو مزید متاثر کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کریڈیبلٹی کا خاتمہ دراصل وزیر اعظم کے احتساب پروگرام کی کریڈیبلٹی کا خاتمہ ہے اور اگر احتساب کو پی ٹی آئی کے بیانیہ سے نکال دیا جائے تو اس کی سیاست کی بنیاد ہی مسمار ہو جاتی ہے۔ غالباً اسی خدشے کے پیشِ نظر حکومت کے کارندے ایشو کو نان ایشو اور نان ایشو کو ایشو بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اس کوشش میں ایسے ایشوز کو بھی متنازع بنا رہے ہیں‘ جن پر سیاست کرنے کی نہ صرف کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ خود پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے ذمہ دار حلقوں نے تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی تھی کہ ان ایشوز پر سیاست نہ کی جائے۔ ان میں کورونا وائرس کی وبا اور پاکستان میں اس وبا کی روک تھام کے مختلف سطح پر کئے جانے والے اقدامات شامل ہیں‘ مگر وزیر اطلاعات شبلی فراز نے یہ کہہ کر کہ ''سخت لاک ڈائون کا مطالبہ کرنے والے اب منہ چھپارہے ہیں‘‘ ان حلقوں کی محنت اور تگ و دو پر پانی پھیر دیا ہے‘ جنہوں نے کورونا وائرس کی وبا کی پاکستان میں دریافت کے ابتدائی دور میں موثر اقدام کے ذریعے اسے مزید پھیلنے سے روک دیا۔
کورونا وائرس کی ابتدا چین کے شہر ووہان سے ہوئی تھی‘ اور وہیں سے متاثرہ افراد کے ذریعے یہ وبا دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلی۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جن ملکوں نے اپنی علاقائی حدود کی سختی سے نگرانی کی اور سرحدوں کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لئے بندکر دیا‘ وہ اس وبا سے بہت حد تک محفوظ رہے‘ لیکن پاکستان کی مرکزی حکومت‘ جس کی ذمہ داری میں سرحدوں کے آر پار زمینی یا ہوائی ذرائع سے لوگوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ہے‘ اپنے اس فریضے سے بالکل غافل تھی۔ ہوائی اڈوں پر باہر سے پروازوں کے ذریعے آنے والوں کے لئے ٹیسٹنگ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ایران میں کورونا وائرس کی وبا پاکستان سے بہت پہلے پھوٹ پڑی تھی اور اس کی اطلاعات پاکستان میں برابر پہنچ رہی تھیں‘ مگر بلوچستان کی سرحد پر زائرین کی ٹیسٹنگ یا انہیں قرنطینہ کرنے کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس انتظام کی ذمہ داری وفاقی نہ کسی صوبائی حکومت پر ہے‘ لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے بر وقت ضروری اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔ پاکستان میں کورونا کے ہاتھوں جاں گنوا دینے والوں میں سے بھاری اکثریت کو یہ موذی مرض باہر سے آنے والے متاثرہ افراد کے قریب آنے یا رابطہ کرنے کی وجہ سے لاحق ہوا۔ اگر سندھ حکومت کراچی ایئرپورٹ پر باہر سے آنے والے مسافروں کو روک کر ٹیسٹ نہ کرتی اور پازیٹو ثابت ہونے والوں کو ایئرپورٹ یا بلوچستان کی سرحد پر حفاظتی کیمپوں میں ایک مقررہ مدت تک نہ روکے رکھتی تو وبا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ دنیا کے دیگر ملکوں‘ جن میں چین بھی شامل ہے‘ کا تجربہ بتاتا ہے کہ مختصر مگر سخت لاک ڈائون نے ابتدائی مرحلے میں وبا سے مزید ہلاکتیں روکنے میں مدد دی۔ خود وفاقی حکومت کے بعض اراکین‘ جن میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر بھی شامل ہیں‘ نے سندھ حکومت کے اقدامات کی نہ صرف تعریف کی بلکہ اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ اس سے وبا پر قابو پانے میں بہت مدد ملی۔ اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں وزیر اطلاعات سخت لاک ڈائون کے حامیوں کو قومی مجرم گردانتے ہیں۔