ہفتہ 5 ستمبر کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور ملک کے معاشی اور کاروباری مرکز یعنی کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے 1100 بلین روپے کے جس پیکیج کا اعلان کیا‘ اسے قوم کے ہر طبقے نے سراہا ہے کیونکہ پاکستان میں اس سے قبل کسی شہر یا صوبے کے لئے اتنی بڑی رقم کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ حالیہ تباہ کن بارشوں اور چند دیرینہ وجوہ کی بنا پر کراچی کی زبوں حالی سے آبادی کے جو طبقات بری طرح متاثر ہوئے‘ ان سب کے مفادات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ تمام طبقوں کو درپیش مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جا سکے۔ اس پیکیج کا سب سے نمایاں اور تسلی بخش پہلو یہ ہے کہ اس میں صوبہ سندھ کی منتخب حکومت کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پیکیج پر عمل درآمد کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی‘ جس کی سربراہی صوبے کے وزیر اعلیٰ کے پاس ہو گی۔ کراچی میں بد امنی‘ انفراسٹرکچر کی کمی اور سہولتوں کے فقدان پر شہر کی تاجر برادری اور سول سوسائٹی سب سے زیادہ نالاں رہی ہے۔ ان شکایات کو دور کرنے کے لئے اور ان کے مشوروں سے استفادہ کے لئے تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے ارکان کو بھی اس پیکیج پر عمل درآمد کے لئے تجویز کردہ میکنزم سے وابستہ کیا گیا ہے۔ چونکہ اس پیکیج پر عمل درآمد مکمل کرنے کی ایک ٹائم لائن دی گئی ہے‘ اس لئے اس کی بر وقت تکمیل یقینی بنانے کے لئے فوج اور بعض وفاقی ایجنسیوں مثلاً این ڈی ایم اے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسی لئے نہ صرف سندھ حکومت بلکہ تاجر برادری نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔
ان ساری مثبت چیزوں کے باوجود بعض حلقوں کی طرف سے نہ صرف کچھ تحفظات بلکہ ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ جنہیں نظر اندازنہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی مختلف مواقع پر کراچی کے لئے مختلف پیکیجز کا اعلان ہوتا رہا ہے‘ لیکن یہ پیکیجز اعلانات تک ہی محدود رہے‘ مثلاً چند ماہ پیشتر وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے لئے 162 ملین روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا‘ مگر وفاقی حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ اس لئے عام لوگ پوچھتے ہیں کہ کہیں اس پیکیج کا وہی حشر نہ ہو‘ جو اس سے پہلے اعلان کردہ پیکیجز کا ہوا۔ دوسرا مسئلہ فنڈز کا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اپنے اعلانات کے مطابق ہر سطح پر فنڈز کی کمی ہے۔ وفاقی حکومت نے مالی خسارے کو کم کرنے کے لئے ترقیاتی منصوبوں کو پہلے ہی 50 فیصد تک روک دیا ہے۔ سندھ کی حکومت کو شکایت ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق سے صوبے کو اپنے حصے کی پوری رقم نہ ملنے کی وجہ سے سندھ میں پہلے ہی ترقیاتی کام متاثر ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت‘ جس کا پہیہ پہلے ہی جام تھا‘ اب ترقیٔ معکوس کی صورت میں تشویشناک صورت حال پیش کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس پیکیج کے لئے وفاقی اور سندھ کی صوبائی‘ دونوں حکومتیں مل کر فنڈز مہیا کریں گی‘ مگر سوال یہ ہے کہ یہ فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ توقع ہے کہ وفاقی اور صوبائی‘ دونوں حکومتیں اس کے لئے پرائیویٹ پبلک سیکٹر تعاون اور غیر ملکی امداد دینے والی یا سرمایہ کاری کرنے والی ایجنسیوں کو اس منصوبے کے تحت مختلف کام خصوصاً انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں گی۔ کورونا وائرس کی وبا کی شدت کم ہونے سے عام کاروبار اور معاشی سرگرمیاں بحال ہونے سے معیشت میں بہتری کے جو آثار نمایاں ہوئے ہیں‘ ان سے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری کے امکانات یقینا بڑھے ہیں۔
حالیہ بارشوں نے کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے سندھ میں جو تباہی مچائی ہے‘ اس کے پیش نظر بیشتر حلقے اس پیکیج پر عمل درآمد اور اس کی تکمیل کے بارے میں پُر امید نہیں‘ جبکہ عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں معاشی اور سماجی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی بڑے خطرناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وفاقی اور صوبائی‘ دونوں حکومتوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس پیکیج کو ڈی ریل نہ ہونے دیں‘ نہ ہی ایسے عناصر کو موقع دیں کہ وہ اس پیکیج کو اپنے مذموم مقاصد کے راستے میں رکاوٹ سمجھ کر اسے سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوں۔ یہ وہ عناصر ہیں‘ جنہوں نے ماضی میں کراچی کو لسانی جھگڑوں‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی گھنائونی سرگرمیوں کا میدان بنائے رکھا تھا۔ دسمبر 2013 کے رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن نے ان عناصر کی بہت حد تک سرکوبی کر دی ہے اور اب وہ کراچی کے امن کو ماضی کی طرح اچانک ہڑتالوں‘ اندھا دھند فائرنگ اور خوف و ہراس سے خاکستر نہیں کر سکتے‘ مگر ان کی طرف سے پیکیج کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو مکمل طور پر رول آئوٹ نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کی طرح اب بھی کراچی کو در پیش مختلف مسائل مثلاً امن و امان کی خرابی اور انفراسٹرکچر کی زبوں حالی کی آڑ میں اسے سندھ سے علیحدہ کر کے ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس مطالبے کے پیچھے کارفرما سوچ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کا اب بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے پیکیج پر تحفظات کا اظہار کرنے والے وہ عناصر پیش پیش ہیں جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ حالیہ بارشوں کی تباہ کاریوں کی آڑ میں صوبائی حکومت کی چھٹی ہو جائے گی اور اس طرح سندھ سے کراچی کی علیحدگی اورآخر کار ایک علیحدہ صوبے کے قیام کے لئے راستہ ہموار ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت اور خاص طور پر چیف آف دی آرمی سٹاف کا یہ اعتراف کہ 'کراچی کے دیرینہ اور پیچیدہ مسائل کو صرف مل کر حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے صوبائی حکومت کا تعاون لازم ہے‘ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت‘ دونوں کے مابین شدید اختلافات کے باوجود قومی سطح پر اس نظریے کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں کہ کراچی کے مسئلے کا حل اسے سندھ سے علیحدہ کر کے ایک صوبہ بنانے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
ہر چند کہ وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ پیکیج اپنے حجم کے اعتبار سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکیج ہے اور اس پر بیشتر حلقوں کی طرف سے اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا ہے‘ اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ کراچی کے مسئلے کو پورے ملک کو درپیش مسائل سے الگ نہیں کیا جا سکتا‘ اور ان مسائل کا ایک مکمل‘ تسلی بخش اور حتمی حل تلاش کرنے کے لئے ایک ہمہ جہت اور ملک گیر اپروچ اختیار کرنا ہو گی۔ یہ درست ہے کہ کراچی کے بعض مسائل مخصوص نوعیت کے ہی‘ مگر ان سب مسائل کی بنیادی وجہ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں آبادی کی منتقلی (Mobilization) ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے‘ جہاں اربنائزیشن (Urbanization) کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفراسٹرکچر‘ ماحولیاتی آلودگی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات کی صورت میں جو مسائل اس وقت کراچی کو در پیش ہیں‘ ان کا پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر کو سامنا ہے‘ اور اس کی بنیادی وجہ علاقائی تفاوتیں (Regional Disparities) ہیں۔ علاقائی تفاوتوں سے جنوبی ایشیا کا ہر ملک دوچار ہے اور ان کی وجہ سے ان ممالک میں سماجی اور سیاسی تنازعات پروان چڑھ رہے ہیں مگر پاکستان میں زیادہ ہیں‘ اس لئے اگر کراچی اور دیگر شہروں میں مستقل امن مقصود ہے تو اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔