جرمنی کے مشہور ملٹری مورخ اور سٹریٹیجک تھنکر کلازوٹز (Clausewitz) کا قول ہے کہ جنگ اور سیاست ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مقصد کے حصول کیلئے جو ذرائع استعمال ہوتے ہیں‘ وہ دونوں کے مختلف ہیں‘ ورنہ جنگ دراصل سیاسی عمل کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔ سیاست کی تعریف کو اگر ذرا آگے بڑھائیں تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جس طرح جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے‘ اسی طرح سیاست میں بھی یہ اصول اپنایا جا سکتا ہے کہ اصل اہمیت حصولِ مقصد کو حاصل ہوتی ہے‘ اس میں استعمال ہونے والے ذرائع کو نہیں۔ علمِ سیاسیات میں حقیقت پسندی کی تھیوری اسی اصول کی بنا پر تشکیل دی گئی ہے۔ اٹلی کا مشہور سیاسی فلاسفر نیکولو میکیاولی اس نظریے کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اگرچہ سیاسی حقیقت پسندی اب کئی جانب سے ہدفِ تنقید ہے اور اس کے مقابلے میں لبرل ازم جیسے معتبر نظریات وجود میں آ چکے ہیں‘ مگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایک عرصے تک اسے ہر سطح پر سیاسی کشمکش کی تشریح اور مفہوم کو واضح کرنے میں غالب پوزیشن حاصل رہی ہے۔ اب بھی سیاست‘ خواہ عالمی ہو یا مقامی سطح کی‘ پر حقیقت پسندی کی چھاپ گہری نظر آتی ہے۔
عالمی سطح پر یہ منظر ہمیں امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے اس کی شدت میں کمی نہیں آئی‘ بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین کو اس وبا کا ذمہ دار قرار دینے سے تلخی میں اضافہ ہوا۔ ٹرمپ کے اس الزام کے پیچھے بھی سیاست چھپی ہوئی ہے۔ لداخ میں چینی فوجی دستوں نے جب کچھ سرحدی چوکیوں کو بھارت کے غیرقانونی قبضے سے چھڑایا تو بھارتی میڈیا نے الزام عائد کیاکہ چین کورونا وائرس کی وبا سے فائدہ اٹھاکر بھارتی فوجی دستوں پر دبائو ڈال رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں ایران بھی شامل ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ٹرمپ نے انسانی ہمدردی کے تحت ایران کی مدد کے بجائے اس پر مزید پابندیاں عائد کردیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے عالمی جیوپولیٹیکل حقیقتوں کو نہ صرف یہ کہ کسی طور بھی متاثر نہیں کیا‘ بلکہ اس وبا کی آڑ میں جیوپولیٹیکل حقیقتوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس قسم کی کوششوں کی مثال ہمیں عالمی سطح پر ہی نہیں ملتی بلکہ قومی سطح پر بھی یہ کھیل جاری ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کیس کا سب سے پہلے صوبہ سندھ میں پتا چلا۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے عالمی ادارہ صحت (WHO) کی اعلان کردہ گائیڈلائنز اور اس وبا پر کامیابی سے قابو پانے والے ممالک‘ مثلاً چین‘ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے پہلے تعلیمی ادارے اور پھر بازار اور کارخانے مختصر مدت کیلئے بند کر دیئے۔ لاک ڈائون کی اس پالیسی کی تقلید کرتے ہوئے دیگر صوبوں نے بھی بازار‘ مارکیٹیں‘ تعلیمی ادارے‘ ٹرانسپورٹ‘ سینما گھر‘ غرض ہراس سرگرمی پر پابندی لگا دی‘ جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہوسکتی تھی۔ عالمی ادارہ صحت اور خود پاکستان کے طبی ماہرین نے سندھ حکومت کے اقدامات کی تعریف کی اور اعتراف کیاکہ ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف سندھ بلکہ ملک کے باقی حصوں میں بھی کورونا وائرس کی وبا کو خطرناک حد تک پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی‘ لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ستائش یا حوصلہ افزائی کے بجائے سندھ حکومت کے اقدامات کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ان کا تمسخر بھی اڑایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں مرکز میں برسرِ اقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے ہی مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے مابین چند ایشوز کی وجہ سے تعلقات کشیدہ تھے۔ ان ایشوز میں سب سے نمایاں اول الذکر کی طرف سے 18ویں آئینی ترمیم پر تنقید اور این ایف سی ساتویں ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والے فنڈز میں تخفیف کی تجویز تھی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 2010 میں منظور کیا تھا‘ کے تحت صوبائی خود مختاری کا دائرہ مزید وسیع کیا گیا تھا اور 2009 میں این ایف سی کے ساتویں ایوارڈ کے تحت ٹیکسوں کی وصولی سے اکٹھی ہونے والی کل آمدنی کے آدھی سے زیادہ حصے کو صوبوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں نافذ کی جانے والی بالترتیب آٹھویں اور سترہویں آئینی ترمیمات کے تحت پاکستان کے سیاسی نظام کو پارلیمانی سے تقریباً صدارتی نظام میں بدلنے کے اقدامات کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت‘ خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے 18ویں ترمیم پر متواتر تنقید کو پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی طرف سے ایک بار پھر ملک میں صدارتی نظام اور ون یونٹ بحال کرنے کی کوششوں اور صوبہ سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوششوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ہی مرکز اور سندھ کے درمیان ان امور پر لفظی جنگ جاری تھی۔ یہ جنگ وبا کے پھیلنے کے بعد بھی جاری رہی‘ اور اس کی وجہ سے کورونا وائرس کی وبا کے خلاف جنگ پر منفی اثر پڑا کیونکہ فنکشنل تعاون کی غرض سے منعقدہ اجلاس میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر اور نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی میں سندھ اور مرکز کے نمائندے تو اکٹھے بیٹھے تھے اور متفقہ فیصلے کرتے تھے‘ مگر اجلاس کے بعد فریقین ایک دوسرے پر تنقید شروع کر دیتے تھے۔
سندھ کی صوبائی اسمبلی میں حکمران پیپلز پارٹی کے بعد تحریک انصاف کے پاس سب سے زیادہ نشستیں ہیں‘ اس لئے صوبائی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ صوبائی حکومت نے لاک ڈائون کے ذریعے کورونا وائرس کی وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے جو اقدامات کئے‘ پی ٹی آئی سندھ کے عہدیداروں اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی جاتی رہی بلکہ تاجروں اور صنعتکاروں کو صوبائی حکومت کے اقدامات کی خلاف ورزی پر اکسایا بھی گیا۔ ایم کیو ایم (پاکستان) جو اپنے سات ممبر قومی اسمبلی کے ساتھ پی ٹی آئی کی مرکزی اتحادی ہے‘ نے ابتدا میں صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کیا‘ لیکن جب مرکز اور سندھ میں لفظی جنگ تیز ہوئی تو ایم کیو ایم (پی) کے رہنمائوں اور اراکین پارلیمنٹ نے سندھ حکومت کے لاک ڈائون کو صوبے کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کے خلاف پیپلز پارٹی کی سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔
مرکزی حکومت کی طرف سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اعلان کردہ سیاسی جلسوں کی مخالفت سندھ اور مرکزی حکومت کی اسی چپقلش کا تسلسل ہے۔ مرکزی حکومت کا موقف ہے کہ نومبر‘ دسمبر وبا کی دوسری لہر کے پیک (Peak)کے مہینے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کا جواب یہ ہے کہ حکومت دراصل کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور کے کامیاب جلسوں سے گھبرا گئی ہے۔ ان جلسوں کے خلاف حکومت کے پروپیگنڈے اور رکاوٹوں کے باوجود عوام کی اکثریت کی شرکت حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کی نشانی ہے۔ حکومت اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے گھبرا کر اس کے جلسوں پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے اورکورونا وائرس محض بہانہ ہے‘ ورنہ نومبر میں حکومت نے پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں خود پبلک جلسے کئے‘ جن میں سے متعدد میں وزیر اعظم نے شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ اس وقت جبکہ حکومت تمام تر وسائل کے ساتھ جلسوں کو روکنے پر تلی ہوئی ہے‘ دیگر کئی سیاسی جماعتیں اور حکومت کے بعض وزرا اپنے حلقوں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔ اس لئے پی ڈی ایم کی نظر میں حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے نام پر اپوزیشن کے اجتماعات کی مخالفت دراصل کورونا وائرس کی وبا پر سیاست کے مترادف ہے۔