پی ڈی ایم سے پی پی پی کی علیحدگی‘ خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات اور الزامات کے تبادلے کی روشنی میں توقع کی جا رہی تھی کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گی‘ اور اس کے نتیجے میں وفاق اور سندھ کے مابین گزشتہ تقریباً پونے تین برسوں سے جاری بدگمانی‘ عدم تعاون‘ الزام تراشی اور باہمی شکایات پر مبنی ماحول تعاون‘ مفاہمت اور خیر سگالی میں تبدیل ہو جائے گا۔ پی پی پی کے متعلق حکومت کے ترجمانوں کی زبان اور لہجے میں خوشگوار تبدیلی سے یہ توقع اور بھی مضبوط ہو گئی تھی‘ لیکن 16 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان کے سکھر اور کراچی کے دورے اور سندھ کے 14 اضلاع کے لئے 446 ارب روپے کے پیکیج کے اعلان کے موقع پر ان کی تقریر نے ان تمام امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر دیا۔ سب سے پہلے تو مایوسی یہ دیکھ کر ہوئی کہ وزیر اعظم سندھ کے دو اہم شہروں کا دورہ کر رہے تھے‘ ان کے لئے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کر رہے تھے‘ مگر صوبے کے وزیر اعلیٰ یا سندھ حکومت کا کوئی نمائندہ اس دوران ان کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ سندھ حکومت کو اس دورے کی اطلاع ہی نہیں دی گئی تھی۔ خیر‘ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال تک وزیر اعظم نے سندھ اور کراچی کا متعدد بار دورہ کیا‘ لیکن وزیر اعلیٰ کو ملنا گوارا نہیں کیا۔ اس دوران اگر وزیر اعظم اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے مابین رابطہ ہوا تو وہ ملٹی لیٹرل اداروں مثلاً نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی (این سی سی) کے آن لائن اجلاس یا کونسل آف کامن انٹرسٹس (سی سی آئی) کے اجلاس میں ہوا۔
سکھر میں منعقدہ تقریب میں وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ اقتصادی منصوبہ بندی اسد عمر نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے ناصرف اسے صوبے کی موجودہ پسماندگی کا ذمہ دار قرار دیا بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ کی ترقی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں حسبِ ماضی ان تمام مسائل کا ذکر کیا‘ جو گزشتہ تین برسوں کے دوران وفاقی اور صوبائی‘ دونوں حکومتوں کے مابین کشیدگی کا باعث چلے آ رہے ہیں۔ ان میں 18ویں ترمیم اور قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی ایوارڈ) میں صوبوں کے حصے کا مسئلہ شامل ہیں۔ وزیر اعظم کا موقف یہ ہے کہ ان پر نظرثانی ہونی چاہئے کیونکہ صوبوں کو ان کے حصے کی رقم اور قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے لئے وسائل مختص کرنے کے بعد مرکز کے پاس ترقیاتی کاموں کے لئے پیسہ نہیں بچتا۔ اپنی سابق تقاریر میں وزیر اعظم فرما چکے ہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم نے وزرائے اعلیٰ کو ڈکٹیٹر بنا دیا ہے۔ اگرچہ ملک کے تمام صوبے‘ جن میں پنجاب بھی شامل ہے‘ 18ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کے حصے پر نظر ثانی کے خلاف ہیں؛ تاہم سندھ کی طرف سے 18ویں آئینی ترمیم کا سب سے زیادہ دفاع کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کی آڑ میں وفاقی حکومت سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما اور 18ویں آئینی ترمیم کے خالق رضا ربانی کئی بار الزام دہرا چکے ہیں کہ 2010 میں منظور کی جانے والی اس ترمیم کو رول بیک کرکے ون یونٹ قائم کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ پاکستان میں کچھ قوتیں پارلیمانی نظام اور 18ویں ترمیم کے خلاف ہیں۔ اس ترمیم کو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے تشبیہ دی جا چکی ہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان صدارتی نظام کے حق میں بتائے جاتے ہیں۔ گزشتہ کم و بیش تین برسوں میں انہوں نے صدارتی آرڈیننسز اور غیرمنتخب مشیروں اور معاونینِ خصوصی پر انحصار کرتے ہوئے ملک پر جس طرح حکمرانی کی ہے‘ اس سے ان کی ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں پسند و ناپسند کا پتا چلتا ہے۔ اس کے ساتھ سندھ قدرتی اور معدنی دولت کے اعتبار سے صوبوں پر سبقت حاصل کرتا ہوا نظر آ رہا ہے‘ کیونکہ کوئلے کے علاوہ تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت ہو رہے ہیں‘ جیسا کہ وفاقی وزیر اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ اس وقت گیس کی پیداوار میں سندھ باقی تمام صوبوں سے آگے ہے۔ اس وقت سندھ میں 2600-2700 سی ایف ڈی (Computational fluid dynamics) گیس پیدا ہو رہی ہے۔ ملک کے بالائی علاقوں یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس کی طلب پیداوار سے کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے سندھ پر گیس کی سپلائی میں اضافہ کرنے کے لئے دبائو ہے‘ مگر آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت سندھ میں پیدا ہونے والی گیس پر پہلا حق سندھیوں کا ہے اور صوبے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو گیس بچ جائے‘ اسے ملک کے شمالی علاقوں کو سپلائی کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت محصولات میں سے صوبوں کو ملنے والی رقوم کا تعلق ہے تو اس پر سندھ سمیت دیگر تمام صوبوں کا موقف یہ ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کی ذمہ داری میں اضافہ ہو چکا ہے‘ کیونکہ 16 کے قریب وزارتیں اور 100 کے قریب کارپوریشنز مرکز سے صوبوں کو منتقل کی گئی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے جتنے وسائل کی ضرورت ہے‘ وہ صوبوں کو فراہم نہیں کئے گئے۔ جیسے لا اینڈ آرڈر اور کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کا مسئلہ ہے۔ آئین کے تحت لا اینڈ آرڈر صوبائی ذمہ داری ہے‘ لیکن دہشتگردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنا صوبوں کے بس کی بات نہیں‘ کیونکہ صوبائی پولیس نہ تو پوری طرح تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی صلاحیت کے اعتبار سے منظم‘ جدید ہتھیاروں سے مسلح دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس کیلئے صوبوں کو مرکز سے نہ صرف قانون نافذ کرنے والی طاقتور ایجنسیوں کی مدد کی ضرورت ہے بلکہ مالی امداد بھی چاہئے‘ لیکن صوبوں کو شکایت ہے کہ مرکز یہ فریضہ سرانجام دینے میں ناکام رہا ہے‘ مثلاً سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ سات برسوں سے زائد عرصے سے کراچی میں پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے اخراجات حکومت سندھ خود برداشت کرتی چلی آ رہی ہے‘ اور وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی کوئی مالی مدد نہیں کی۔ اسی طرح صحت ایک صوبائی محکمہ ہے‘ مگر کورونا وائرس جیسی عالمی وبا جیسے چیلنج کا مقابلہ کرنا اور اس میں صوبوں کی مدد کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے‘ لیکن سندھ کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
مرکز اور سندھ کے مابین تازہ ترین مسئلہ کراچی کے قریب دو جزیروں پر وفاقی حکومت کی طرف سے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا ہے۔ اس مقصد کیلئے وفاقی حکومت نے 31 اگست 2020 کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی تھی‘ لیکن سندھ حکومت کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت نے یہ اقدام سندھ کو اعتماد میں لئے بغیر کیا اور آئین کے مطابق یہ دونوں جزیرے سندھ کی ملکیت ہیں۔ وزیر اعظم نے سکھر میں تقریب سے اپنے خطاب میں ان جزیروں کے مسئلے کو اٹھایا اور سندھ حکومت پر زور دیا کہ وہ ان پر وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی کام کیلئے این او سی دوبارہ جاری کرے مگر سندھ حکومت وفاقی حکومت کا دبائو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ نواز شریف دور (2013-18) میں وفاق اور سندھ کے مابین تعلقات نہ صرف باہمی اعتماد بلکہ قریبی تعاون پر مبنی تھے‘ لیکن موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی دونوں میں کشیدگی اور بدگمانی کا دور شروع ہو گیا اور اس میں کورونا وائرس اور پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے باوجود کمی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ‘ موجودہ حکومت کے مرکزیت پر مبنی سیاسی نظریے اور اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کا سب سے زیادہ مخالف ہے۔