بھارت میں کورونا وائرس کی وبا سے بیمار اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافے کے پیشِ نظر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے با ضابطہ طور پر نئی دہلی کو ہر ممکن امداد اور تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اسلام آباد کی طرف سے پیش کردہ امداد میں وینٹی لیٹرز‘ ڈیجیٹل ایکسرے مشینیں‘ پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (PPE) ماسکس اور دیگر متعلقہ سامان ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ امدادی اشیا کی جلد منتقلی کے لیے دونوں ملکوں کے اہلکار مناسب طریقہ کار وضع کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ پاکستان کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اس موذی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید تعاون کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
زلزلہ‘ سیلاب‘ قحط‘ سمندری طوفان یا وبا کی شکل میں جب کوئی قدرتی آفت کسی علاقے یا ملک پر نازل ہوتی ہے تو لوگ اپنے ذاتی اختلافات یا پُرانی دشمنیوں کو بھول کر ایک دوسرے کی امداد کو دوڑ پڑتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے کام آنے کا یہ جذبہ صرف مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ ہمارے اپنے خطے میں اس عظیم انسانی جذبے کا مظاہرہ آزاد کشمیر اور موجودہ خیبر پختونخوا میں 2005 کے تباہ کن زلزلے کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا‘ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر میں زلزلہ زدگان کو امداد فراہم کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول پر پانچ مقامات سے ترسیل کی اجازت دی تھی۔ بعد میں اس سہولت کو کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار ریاست کے دونوں حصوں کے مابین بارٹر ٹریڈ کی صورت میں باقاعدہ شکل دے دی گئی تھی‘ جو ایک آدھ موقع پر تعطل کے ساتھ 5 اگست 2019 تک جاری رہی۔
کیا بھارت کو کورونا وائرس کی وبا میں پاکستان کی امدادی پیشکش دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری اور روابط کی بحالی کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟ ایسا بالکل ممکن ہے کیونکہ ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین بالواسطہ روابط 'سارک‘ کے ذریعے پہلے ہی قائم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال مارچ میں بھارت نے سربراہی سطح پر 'سارک‘ کی ایک ویڈیو کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی‘ لیکن کشمیر میں بھارت کے 5 اگست 2019 کے اقدامات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات اتنے کشیدہ تھے کہ اپریل 2020 میں جب بھارت نے 'خطے میں تجارت اور لوگوں کی آمدورفت پر اس وبا کے اثرات‘ پر بحث کے لیے علاقائی ٹریڈ پر کانفرنس کا انعقاد کیا تو پاکستان نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اسی طرح پاکستان نے بھارت کی طرف سے تجویز کردہ 'کووڈ19 ایمرجنسی فنڈ‘ میں بھی شمولیت اختیار نہ کی‘ البتہ 23 ا پریل 2020 کو پاکستان کی جانب سے وبا کے خلاف سارک کے رکن ممالک کے وزرائے صحت کی جو ویڈیو کانفرنس منعقد کی گئی‘ بھارت نے اس میں شرکت کی تھی۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال پاک بھارت تعلقات کافی بہتر ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ ان اقدامات کا سلسلہ ہے‘ جسے دونوں ملکوں نے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے اور باہمی تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کے لیے شروع کیا ہے۔ اس سال فروری میں پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر 2003 کے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت مکمل طور پر امن قائم کرنے کا اعلان تھا۔ پاکستان اور بھارت اس مفاہمت کی بنیاد پر دو طرفہ تجارت بحال کر کے مصالحت کے عمل کو مزید آگے لے جانا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں پاکستان نے محدود سطح پر بھارت سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا‘ مگر ملک میں حزبِ مخالف اور بعض حلقوں کی طرف سے مخالفت کے سبب یہ اعلان واپس لینا پڑا‘ تاہم لائن آف کنٹرول پر صورت حال پُرامن اور مستحکم ہے‘ کیونکہ دونوں طرف سے جنگ بندی پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بیک چینل روابط قائم ہو چکے ہیں‘ جنہیں دونوں ملکوں کے مابین باقاعدہ بات چیت کی راہ ہموار کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے کچھ ممالک‘ جن کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ اہم اوردوستانہ تعلقات قائم ہیں‘ اس میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے میڈیکل امداد کی پیشکش کا ابھی بھارتی حکومت نے کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا‘ تاہم بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کی طرف سے خیر سگالی کے اس جذبے کی بڑی تعریف کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی حیران کن اور تعجب خیز بات نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین امن‘ تعاون اور کشیدگی میں کمی کے جب کبھی امکانات پیدا ہوتے ہیں‘ دونوں ملکوں کے عوام کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ موجودہ پیشکش کا ایک نیا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ حکومت کی طرف سے ہی نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے سرکردہ رہنما بھی اس میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے مصیبت کی اس گھڑی میں انسانیت کی بنیاد پر بھارتی عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کے بیانات جاری کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف بھی بھارت کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اظہار میں شامل ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے بھارتی عوام کے ساتھ جس طرح یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس نے بھارت میں سول سوسائٹی کو بہت متاثر کیا ہے۔ دونوں ملکوں کیلئے چنانچہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس خوشگوار فضا کو باہمی روابط کو پھر سے بحال کرنے کیلئے استعمال کریں کیونکہ 5 اگست کے بھارتی اقدامات کے باعث پاکستان اور بھارت کے مابین تقریباً ہر قسم کے روابط معطل ہیں۔ یہ صورت حال زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ دونوں ممالک نہ صرف قریبی ہمسائے ہیں بلکہ معاشی‘ سماجی اور ثقافتی شعبوں میں متعدد مشترک اقدار کے ذریعے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ باہمی روابط کے تعطل اور اطلاعات کی ترسیل پر پابندی سے خطرناک غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں‘ جو نہ صرف دونوں ملکوں کے مفادات بلکہ پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک مثلاً چین‘ امریکہ‘ برطانیہ اور عالمی ادارہ صحت نے بھی بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے بھارتی حکومت کو امداد کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کی پیشکش کے مقابلے میں ان ملکوں اور عالمی اداروں کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کہیں زیادہ ہے‘ لیکن پاکستان کی پیشکش کی سمبولک ویلیو زیادہ ہے کیونکہ یہ پیشکش ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب دونوں ملکوں کے مابین روابط منقطع ہونے کی وجہ سے پورا جنوبی ایشیا بے یقینی اور کشیدہ صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسی صورت میں یہ پیشکش انسانی جذبے کی بنیاد پر اور پورے خلوص کے ساتھ کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام حکومتوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کے باوجود آفت زدہ بھارتی عوام کے ساتھ دلی ہمدردی‘ اور مقدور بھر امداد فراہم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عوامی سطح پر بھارت میں پاکستان کی اس پیشکش کی تعریف کی گئی ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت بھی اپنے عوام کی طرح پاکستان کی اس پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے مابین موجودہ کشیدگی ختم کر کے باہمی بات چیت کے لیے موزوں اور خوشگوار فضا قائم کرے گی۔