اگر ایک طرف پاک بھارت بیک چینل روابط کے نتیجے میں ملک کی مشرقی سرحدوں پر کشیدگی میں کمی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ایران اور سعودی عرب کے مابین خوشگوار بیانات کے تبادلوں سے پاکستان کے مغربی جانب امن اور استحکام کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایران کے ساتھ اختلافات ختم کرنے اور مل کر مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے میں قیامِ امن اور خوشحالی میں اضافے کیلئے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایران نے بھی محمد بن سلمان کے بیان پر اپنا ردِ عمل جاری کرنے میں دیر نہیں کی اور انٹرویو نشر ہونے کے دو دن بعد ہی ایرانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کر دیا جس میں حکومت ایران نے سعودی ولی عہد کے بیان کا خیر مقدم کیا اور ان کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ایک دوسرے کے بارے میں تعمیری رویہ اختیار کرکے اور باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے دور کرنے کی راہ اپنا کردونوں ملکوں کے تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔ محمد بن سلمان کے بیان کا فوری خیر مقدم کرکے ایران نے ثابت کیا ہے کہ تہران‘ ریاض کے ساتھ مصالحت اور تعاون کی برابر خواہش رکھتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ایران اپنی اس خواہش کا متعدد بار اظہار کر چکا ہے‘ لیکن دوسری جانب سے مثبت ردِ عمل کے نہ آنے کی وجہ سے اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی‘ لیکن دنیا کے دیگر خطوں کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بھی حالات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کا برسرِ اقتدار آنا ہے۔ جو بائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی فیصلوں کو رد کرکے امریکی خارجہ پالیسی کی جہت تبدیل کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان میں 2015ء میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کیلئے امریکہ اور پانچ دیگر ممالک روس‘ چین‘ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جس پر سابق صدر اوباما کے دور میں دستخط کئے گئے تھے‘ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس سے علیحدہ کر لیا تھا۔ امریکہ کے اس اقدام پر اس کے یورپی اتحادی اور عالمی برادری ناراض اور تشویش کا شکار تھی۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا تھا‘ جو ٹرمپ کی ایران کے بارے میں سخت گیر پالیسی کے حامی تھے‘ جس میں ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کی مخالفت بھی شامل تھی۔ صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کے اقدام کے برعکس ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مذاکرات ویانا میں جاری ہیں اور یورپی یونین کے نمائندے ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان مذاکرات کی رفتار بہت سست ہے اور کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے میں دیر لگ سکتی ہے‘ لیکن امریکہ کی نئی انتظامیہ کی طرف سے ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری معاہدے کیلئے مذاکرات کا آغاز دنیا‘ خصوصاً مشرق وسطیٰ کیلئے ایک اہم پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ عرصہ پیشتر اسرائیل کی طرف سے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے باوجود یہ مذاکرات جاری ہیں اور فریقین ان کی کامیابی کے بارے میں کافی پُرامید ہیں۔ 24 اپریل کو ترکی کے شہر استنبول میں افغان مسئلے کے حل کیلئے امریکہ کی تجویز پر جو بین الاقوامی کانفرنس بلائی گئی تھی‘ اس میں امریکہ نے پہلی دفعہ ایران کو بھی مدعو کیا تھا۔ ایران کے بارے میں امریکہ کی نئی انتظامیہ کے بدلے ہوئے رویے کا یہ ایک اور ثبوت ہے۔ مبصرین کے مطابق ایران کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں اس تبدیلی نے سعودی کو بھی موقف تبدیل کرنے پر مائل کیا ہے‘ مگر اس سے زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سات سال سے ایران کے خلاف جاری محاذ آرائی کی پالیسی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ اس پالیسی کے تحت سعودی عرب نے عراق‘ شام‘ لبنان اور خلیج فارس کے دیگر علاقوں میں ایران پر توسیعی عزائم کا الزام عائد کیا تھا۔ 2015ء میں یمن میں فوجی مداخلت اس پالیسی کا حصہ تھی لیکن یہ پالیسی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب یمن کی جنگ سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اس نے حوثیوں کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی‘ جو مسترد کر دی گئی۔ اب سعودی عرب یمن میں جنگ بندی کیلئے ایران کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ عراق میں ایرانی اور سعودی اہلکاروں کے درمیان ہونے والے خفیہ مذاکرات کا مقصد بھی یہی تھا۔ محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ بات چیت کے ذریعے جن مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ان میں شام‘ لبنان اور عراق پر دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کے علاوہ یمن میں باغی حوثی قبائل کو جنگ بندی پر مائل کرنا بھی شامل ہے۔ اگرچہ ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات کے فوری خاتمے کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے حوثی باغیوں کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات میں یمن میں امن کے قیام کیلئے جنگ بندی پر جس طرح زور دیا اور سعودی ولی عہد کے انٹرویو کا جس طرح خیر مقدم کیا اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ ان ملکوں میں محاذ آرائی سے پاک تعلقات کا آغاز ہو جائے گا ۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت سے جن ملکوں کو خصوصی طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے‘ ان میں پاکستان ‘ چین اور بھارت بھی شامل ہیں‘ خاص طور پر پاکستان میں اس کا خصوصی خیرمقدم کیا جائے گا کیونکہ ایران اور سعودی عرب دونوں پاکستان کے دوست ممالک ہیں اور ان کے مابین کشیدگی سے پاکستان کی خلیج فارس میں ڈپلومیسی کیلئے پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری سے پاکستان کی مغربی سرحدوں پر امن اور استحکام کی فضا پیدا ہو گی جو اس پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔ مبصرین کی نظر میں خلیج فارس اور اس کے آس پاس کے پانیوں مثلاً خلیج اومان اور بحرِ احمر میں میری ٹائم سکیورٹی ایک نہایت سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے جسے حل کرنے کیلئے نہ صرف علاقائی ممالک بلکہ بین الاقوامی برادری بھی فوری اور مؤثر اقدام کی خواہش مند ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے ایران کے ساتھ نارمل ہمسایہ ملک کی طرح تعلقات اور باہمی اختلافات کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کے پیچھے جو متعدد عوامل کارفرما ہیں ان میں میری ٹائم سکیورٹی سب سے اہم ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی میں تمام علاقائی ممالک کے مفادات خطرے میں ہیں۔ گزشتہ چھ سات برس کے تجربے کی بنا پر سعودی عرب غالباً اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ ایران کے تعاون کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا ۔ ایران اور سعودی عرب نہ صرف ہمسایہ بلکہ برادر مسلم ممالک ہیں۔ فروری 1979ء کے اسلامی انقلاب سے قبل دونوں کے تعلقات دوستی‘ اور قریبی تعاون پر مبنی تھے‘ جس کی وجہ سے نہ صرف خلیج فارس ایک مستحکم خطہ تھا‘ بلکہ دونوں ملکوں کے مابین تعاون کی وجہ سے تیل کی برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیمOPEC بھی مغربی ممالک کو اپنی شرائط پر تیل خریدنے پر مجبور کر سکتی تھی‘ مگر گزشتہ چار دہائیوں میں امریکی نے ان دونوں ملکوں کے مابین غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کر کے خطے میں کشیدگی کی فضا پیدا کی۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں ایسی سیاسی طاقتیں مستحکم ہو چکی ہیں‘ جو نہ صرف اپنے مفادات کو پہچانتی ہیں بلکہ ان کے تحفظ کیلئے امن اور باہمی تعاون کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کیلئے موجودہ کوشش خطے میں امن اور سلامتی کے لیے ایک نیک شگون ہے۔