ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد بیت المقدس میں عبادت کے لئے جمع ہوتی ہے۔ مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں روضۂ رسولﷺ کے بعد مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لئے تیسرا بڑا مقدس مقام ہے۔ ماہ رمضان کی مقدس ترین رات‘ لیلۃالقدر کے موقع پر تقریباً 75 ہزار فلسطینی مسجدِ اقصیٰ اور اس کے احاطے میں محوِ عبادت تھے۔ اسرائیلی حکام نے پہلے تو ان کو مسجد تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کئی رکاوٹیں کھڑی کیں اور تمام سڑکوں کو بلاک کر دیا مگر فلسطینی پیدل چل کر اور تمام تر رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے مسجدِ اقصیٰ تک پہنچ گئے‘ پھر عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں فلسطینی جب نماز ادا کر رہے تھے تو اسرائیلی فوجی بوٹوں سمیت مسجد میں گھس آئے اور بغیر کسی اشتعال کے عبادت میں مصروف فلسطینیوں پر تشدد شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں تین سو کے قریب فلسطینی شدید زخمی ہو گئے۔
اس تشدد کے رد عمل کے طور پر فلسطینیوں کی تنظیم حماس نے اسرائیلی علاقوں کو راکٹوں کا نشانہ بنایا‘ جس کے جواب میں اسرائیل کی فضائیہ نے پوری قوت کے ساتھ غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری شروع کر دی۔ اس بمباری کے نتیجے میں آخری خبریں آنے تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں‘ جن میں سے 40 کے قریب معصوم بچے اور 15 عورتیں بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مزید حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے جارحیت کا دائرہ وسیع کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت سے خطے میں ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ مغربی ممالک میں وہ حلقے بھی‘ جو عام طور پر اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں‘ اس بات پر حیران ہیں کہ اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ میں مسلمان عبادت گزاروں پر تشدد کرکے موجودہ بحران کس مقصد کے تحت پیدا کیا ہے؟ کیونکہ مسجد اور اس کے احاطے میں ہر رمضان المبارک کے موقع پر فلسطینیوں کی کثیر تعداد عبادت کیلئے جمع ہوتی ہے اور جمعۃ الوداع کے روز تو اس کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے مناسب ہو گا کہ فلسطین‘ خصوصاً بیت المقدس‘ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین تنازع کی نوعیت بیان کی جائے۔
اسرائیل کا قیام 1948 میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد (27نومبر 1947) کے تحت دو ریاستوں میں تقسیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا‘ لیکن فلسطینیوں اور عرب ممالک نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی باعث عربوں اور اسرائیل کے مابین جنگ چھڑ گئی‘ جسے پہلی عرب اسرائیل جنگ کہا جاتا ہے۔ کثر تعداد میں ہونے کے باوجود عربوں کو اس جنگ میں شکست ہوئی اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت الاٹ شدہ رقبے سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لیا‘ جس میں بیت المقدس کا مغربی حصہ بھی شامل تھا‘ لیکن اصل اہمیت بیت المقدس کے مشرقی حصے کو حاصل ہے کیونکہ مسلمانوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے تمام مقدس‘ تاریخی اور مذہبی مقامات اس حصے میں واقع ہیں۔ ان میں مسجدِ اقصیٰ بھی شامل ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے مابین پہلی جنگ میں اردن کی فوجوں نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا‘ مگر 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے شام کے علاقے سطح مرتفع گولان اور مصر کے علاقے سینائی اور غزہ کے علاوہ مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا تھا‘ مگر اس جنگ میں اسرائیل نے جن عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا‘ اسے نہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر اور نہ بین الاقوامی قانون کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیل نے غاصبانہ طور پر نہ صرف مشرقی بیت المقدس بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بھی قبضہ کر رکھا ہے‘ جسے بین الاقوامی برادری نے آج تک قبول نہیں کیا۔
1980 میں اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر دیا‘ مگر ایک آدھ ملک کے علاوہ دنیا میں کسی ملک نے اسرائیل کے اس فیصلے کو جائز قرار نہیں دیا؛ تاہم اسرائیل 1967 سے بیت المقدس پر اپنے ناجائز قبضے کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوں سے خالی کروا کر وہاں نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں۔ شیخ الجراح ایک ایسی ہی فلسطینی بستی ہے جس پر قبضہ کرنے اور وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مسجدِ اقصیٰ میں اس دفعہ رمضان المبارک کے موقع پر اسرائیلی پولیس کا مسجد کے اندر گھس کر فلسطینی عبادت گزاروں پر حملہ دراصل شیخ الجراح کے بارے میں اسرائیل کے دیرینہ منصوبے پر عمل درآمد کا حصہ ہے‘ لیکن اسرائیل کے اس اشتعال انگیز اقدام کے محرکات میں صرف شیخ الجراح ہی شامل نہیں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے منتخب ہونے پر اسرائیل خوش نہیں کیونکہ موجودہ صدر کی مشرق وسطیٰ کے بارے میں پالیسی اپنے پیشرو سے یقیناً مختلف ہے اور اس کے اشارے ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں‘ حالانکہ نئے صدر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے صرف چار ماہ ہوئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے ساتھ 2015 کے ایٹمی سمجھوتے کو بحال کرنے میں دلچسپی کا برملا اظہار کیا‘ اور اس کے لئے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کے ساتھ ٹرمپ جیسی گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یمن کی جنگ کو ایک عظیم انسانی المیہ قرار دے کر اسے ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ اس پر بھی نئی یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے اور ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہونے کے لئے دبائو ڈالے گی۔ امریکہ کے موقف میں ان تبدیلیوں کے باعث مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں کئی محاذوں پر کشیدگی کم کرنے اور مصالحت کی طرف بڑھنے کیلئے پیش رفت کا آغاز ہو گیا ہے۔ ان میں ایران اور سعودی عرب کے مابین باہمی اختلافات ختم کرنے کیلئے مذاکرات کا آغاز‘ قطر اور سعودی عرب کے رہنمائوں کے درمیان رابطہ اور امیرِ قطر کا سعودی عرب کا دورہ اور ترکی کے وزیر خارجہ کا دورۂ مصر اور لیبیا و ترکی کے سفارت کاروں کے مابین بات چیت کا آغاز شامل ہے۔ سفارتی سطح پر اس ہلچل کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں جس سیاسی ماحول کے پیدا ہونے کا امکان ہے‘ وہ اسرائیل کیلئے قطعی موزوں نہیں کیونکہ اس کے لئے مقبوضہ عرب علاقوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی فاشسٹ پالیسی کو جاری رکھنے کیلئے ایک پُرامن مشرق وسطیٰ کے بجائے محاذ آرائی‘ کشیدگی اور جنگ و جدل سے بھرپور خطہ زیادہ سود مند ہے کیونکہ علاقائی رقابتوں‘ خانہ جنگی اور تشدد کی اوٹ میں اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف اقدامات کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ میں فلسطینی عبادت گزاروں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اور شیخ الجراح میں فلسطینی مکانات کو مسمار کرکے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس میں مشرق وسطیٰ میں امن‘ استحکام اور مصالحت کی خاطر کوششیں ناکام ہوں تاکہ نیتن یاہو اپنے ایجنڈے کو مکمل کر سکے۔ اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ میں اشتعال انگیزی اور غزہ پر وحشیانہ فضائی حملوں سے صدر جو بائیڈن کے لئے ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس میں وہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو پھر سے بحال کرنے کیلئے مذاکرات کو جاری نہ رکھ سکیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غزہ کے شہری علاقوں کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنانے کے بعد اسرائیل زمینی حملے کی بھی تیاریاں کر رہا ہے۔ اسرائیل کے اس حوصلے کی واحد وجہ بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور خاص طور پر عرب اور باقی مسلم دنیا کی طرف سے ایک موثر اقدام کا فقدان ہے۔ اگر اسرائیل کی جارحیت کو غزہ میں نہ روکا گیا تو پورا خطہ ایک نئی جنگ سے دوچار ہو سکتا ہے۔