اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ افغانستان میں ممکنہ بے قابو صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے کارروائی کے حوالے سے جن ہمسایہ ممالک کے تعاون پر انحصار کرنے کا خواہش مند ہے‘ ان میں ازبکستان اور تاجکستان کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہے‘ بلکہ پاکستان کا نام اس سلسلے میں سرِ فہرست ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان ایک طویل بین الاقوامی سرحد شیئر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے بعد سب سے بڑی پختون آبادی پاکستان میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر کچھ اثرورسوخ رکھتا ہے‘ اور اسی کی بنیاد پر پاکستان نے دوحہ مذاکرات کے آغاز اور افغان امن عمل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کردار کا اعتراف نہ صرف امریکہ اور نیٹو کے رکن ممالک بلکہ صدر اشرف غنی کی افغان حکومت بھی کرتی ہے۔ امریکہ کے فوجی انخلا کے بعد کی صورتحال میں پاکستان کے کردار کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا‘ کیونکہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کی ناکامی کی صورت میں افغانستان ایک خوفناک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ جرمن اخبار Der Spiegel کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر اشرف غنی تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن کا سارا دار و مدار پاکستان پر ہے کیونکہ فوجوں کے انخلا کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کو امریکہ کی فضائی مدد کے بغیر ہی طالبان کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور حال ہی میں افغان طالبان نے جس طرح یکے بعد دیگرے افغان فورسز کی چوکیوں پر قبضہ کیا اور افغان فوج کو جانی نقصان پہنچایا ہے‘ اس کی روشنی میں صاف نظر آ رہا ہے کہ افغان فورسز زیادہ دیر تک طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ امریکہ کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی بھی یہی رائے ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے رخصت ہونے کے بعد افغانستان کی سرکاری فوجیں زیادہ دیر تک طالبان کے خلاف مزاحمت جاری نہیں رکھ سکتیں اور اگر چند ماہ نہیں تو ایک آدھ برس میں افغانستان پر طالبان چھا جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اگرچہ افغان جنگ کے ہیرو اور پنج شیر وادی میں طالبان کے خلاف کامیاب مزاحمت کرنے والے افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بھائی ولی شاہ مسعود اور بیٹے احمد مسعود کا دعویٰ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بھی طالبان کے خلاف موثر مزاحمت جاری رکھی جا سکتی ہے اور طالبان کو 1990 کی دہائی کی تاریخ دہراتے ہوئے کابل پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا‘ اس کے باوجود امریکہ کو فوجی انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال کے بارے میں سخت خدشات لاحق ہیں۔ ان خدشات کے پیشِ نظر امریکہ افغانستان کے قرب و جوار میں اپنی عسکری موجودگی کے ذریعے ضروری کارروائی کا حق محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ اس سکیم میں پاکستان ایک دفعہ پھر ایک اہم فیکٹر بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ غالباً اس نئی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے روابط اور صلاح مشوروں میں اضافہ کر دیا ہے۔
مارچ کے پہلے ہفتے میں جب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے افغانستان کے مسئلے کا حتمی حل طے کرنے کیلئے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو ایک خط کے ذریعے کانفرنس کی تجویز بھیجی‘ جس میں پاکستان‘ افغان حکومت اور طالبان کے علاوہ روس‘ چین‘ بھارت اور ایران کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے فوراً بعد زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل آسٹن سکاٹ ملر عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کیلئے پاکستان (راولپنڈی) میں موجود تھے۔ انہی دنوں امریکی سنٹرل کمان کے کمانڈر جنرل کینتھ میکنزی نے بھی راولپنڈی میں آرمی چیف سے ملاقات کی۔ 28 اپریل کو آرمی چیف کے ساتھ امریکہ کے وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان ملاقاتوں میں جن امور پر بات چیت ہوئی‘ ان میں باہمی دل چسپی کے معاملات‘ علاقائی سلامتی سے متعلق مسائل‘ افغان امن عمل‘ امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کے علاوہ مختلف شعبوں میں پاکستان اور امریکہ کے مابین دو طرفہ تعاون بھی شامل ہے۔
امریکی حلقوں میں ان ملاقاتوں پر جو اطمینان پایا جاتا ہے وہ اس امر کا مظہر ہے کہ امریکیوں کو اپنی توقعات پوری ہونے کی امید ہے۔ ان فواہوں یا خبروں کے بارے میں وزارتِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں اڈا قائم کرنے کی اجازت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک عمران خان صاحب کی حکومت ہے‘ امریکہ کو پاکستان میں اڈے دینے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
یاد رہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان صاحب افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے سخت خلاف تھے بلکہ امریکی فوجوں کی موجودگی کو وہ افغانستان کے مسئلے کا اصل سبب قرار دیتے تھے۔ تب عمران خان نے پاکستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے والے ڈرون حملوں کی سخت مخالفت بھی کی تھی بلکہ ان کو رکوانے کے لئے تحریک کا بھی آغاز کیا تھا۔ ماضی کے اس ریکارڈ کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ امریکہ کو افغانستان پر نظر رکھنے اور ضرورت پڑنے پر کارروائی کے لئے پاکستان کے اندر کوئی سہولت فراہم کرنے کی اجازت دیں گے۔
دوحہ مذاکرات کے حالیہ سلسلے کا آغاز گزشتہ سال ستمبر میں ہوا تھا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ آٹھ ماہ کے اس عرصے میں پاکستان اپنی افغان پالیسی کو امریکی سوچ سے کافی حد تک ہم آہنگ کر رہا ہے مثلاً امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی خواہش کے مطابق پاکستان موجودہ امن مذاکرات کے تسلسل کا حامی ہے‘ امن کے امکانات زیادہ روشن کرنے کے لئے فوری جنگ بندی کے حق میں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مسئلے کو اتفاق رائے سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ اس پالیسی کا اعلان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 10 مئی کو کابل میں صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کے موقع پر کیا تھا‘ جس کے تحت پاکستان افغانستان میں امن مذاکرات کے ایسے سلسلے کی حمایت جاری رکھے گا‘ جس کی باگ ڈور افغانوں کے ہاتھ میں ہو اور جس کی بنیاد تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی تعاون پر ہو۔ پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ سول اور عسکری حکام کے درمیان حال ہی میں جتنی ملاقاتیں ہوئیں‘ ان کے اختتام پر جاری کئے گئے مشترکہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک باہمی تعلقات کو از سرِ نو قائم کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ تعلقات تجارت سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہو سکتے ہیں اور سکیورٹی اور ڈیفنس کے شعبوں میں بھی‘ یعنی پاکستان کی جانب سے امریکہ کو سہولتیں دینے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس پر طالبان کا ردِ عمل سامنے آ گیا ہے‘ جس میں انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو اس کے خطرناک نتائج سے خبردار کیا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو وہ فوجی انخلا کے بعد خطے میں امریکی اڈوں کی موجودگی کی مخالفت کرے گا کیونکہ چین کو خدشہ ہے کہ امریکہ ان اڈوں کے ذریعے سنکیانگ‘ تبت اور گرد و نواح کے علاقوں کے مسائل میں مداخلت تیز کر کے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے یا کم کرنے کی کوشش کرے گا‘ اس لئے پاکستان امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات استوار کرتے وقت چین کے ان خدشات کو پیشِ نظر رکھے گا‘ کیونکہ پاکستان اور چین کے مابین نہ صرف عسکری بلکہ معاشی شعبے میں بھی بڑے گہرے تعلقات ہیں۔ پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ چین کے ساتھ اس کی دیرینہ اور مضبوط دوستی خطرے میں پڑے۔ اس لئے میرے خیال میں پاکستان اور امریکہ کے نئے تعلقات کے خد و خال کو پوری طرح ابھرنے میں ابھی وقت لگے گا۔