وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے چند روز قبل لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اپوزیشن سے مذاکرات پر تیار ہے‘ اور اس مقصد کیلئے ہو سکتا ہے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کوئی فوکل پرسن مقرر کریں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ملک کی بہتری کیلئے اپوزیشن کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے‘ اس لیے چاہتے ہیں کہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات جیسے مسائل پر حکومت سے بات چیت کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری‘ خصوصاً پارلیمانی جمہوری نظام میں اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے‘ اور یہ کردار اسے حکومت کے ساتھ ملکر ادا کرنا پڑتا ہے‘ مگر پاکستان میں پارلیمانی نظامِ کے ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن وہ کردار ادا نہیں کر سکی‘ جس کا آئین اور یہ نظام تقاضا کرتا ہے۔ اس ناکامی کا الزام حکومت اپوزیشن اور اپوزیشن حکومت پر عائد کرتی ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی اپوزیشن کی بنیاد 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد پڑی تھی اور عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی پہلے اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔ حسین شہید سہروردی تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم کارکن‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ کامیاب وکیل‘ زیرک سیاستدان اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ 1956 کے آئین پر خود ان کی پارٹی کے تحفظات کے باوجود اسے ایک متفقہ آئین کے طور پر دوسری آئین ساز اسمبلی سے منظور کرانا‘ ان کا ایک اہم کارنامہ تھا‘ لیکن بطور اپوزیشن لیڈر اور اس کے بعد بحیثیتِ وزیر اعظم ان سے جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ ایوب خان کے دور میں انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی اور عدالتوں میں کرپشن کے الزامات میں پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ ایوب خان فیلڈ مارشل ہوتے ہوئے بھی اس ایک شخص سے اتنے خائف تھے کہ انہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ قبر تک سہروردی کا پیچھا کریں گے۔ اس پر سہروردی کو ملک چھوڑنا پڑا اور انہوں نے بیروت میں پناہ حاصل کرلی‘ جہاں ان کا دسمبر 1963 میں انتقال ہوا۔ عوامی لیگ کے پیروکار آج تک ایوب خان کو سہروردی کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
ایوب خان کے بعد ضیاالحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں اپوزیشن کو حکومت کے ہاتھوں جس سلوک کا سامنا کرنا پڑا‘ اس سے ہم سب واقف ہیں اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں‘ لیکن جمہوری دور نے بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین تعلقات کی قابلِ رشک مثال قائم نہیں کی۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت (1972-77)کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو آمریت کے خلاف عوام کی جمہوری تحریک کی قیادت کرتے ہوئے پاکستانی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات (1970) کے نتیجے میں برسراقتدار آئے تھے‘ لیکن ان کے دور میں ایک صوبائی منتخب حکومت کو برخاست کیا گیا اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنمائوں کو جیل میں ڈال کر ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا‘ البتہ پیپلز پارٹی کے اگلے ادوار یعنی 1988 تا 1990‘ 1993 تا 1996 اور 2008 تا 2013 میں حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات باہمی برداشت اور تعاون پر مبنی تھے۔ 2010 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کرنا اس دور کا ایک یادگار کارنامہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت 2013 تا 2018 سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اگرچہ دونوں پارٹیوں میں سیاسی و نظریاتی اختلافات موجود تھے‘ لیکن میاں نوازشریف کی مرکزی حکومت کا سندھ کی صوبائی حکومت کے بارے میں رویہ مفاہمانہ اور باہمی تعاون پر مبنی تھا۔ اس کی مثال ستمبر 2013 میں کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے کیلئے صوبائی و وفاقی‘ دونوں حکومتوں کے مابین اتفاق کی بنیاد پر پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کا آغاز تھا‘ حالانکہ بعض حلقوں کی طرف سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبات کئے جا رہے تھے‘ مگر نوازشریف نے نہ صرف ان مطالبات کو مسترد کیا بلکہ اس آپریشن کی باگ ڈور سندھ کی صوبائی حکومت کے حوالے کردی۔ اس دور میں سندھ اور وفاق کے تعلقات عمومی طور پر خوشگوار اور تعاون پر مبنی ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ملک کی دو سب سے بڑی پارٹیوں‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن‘ نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف غیرقانونی اور غیر آئینی کارروائیوں سے اجتناب کا وعدہ کیا تھا‘ اور اس وعدے کی تحریری شکل یعنی چارٹر آف ڈیموکریسی پر 2006 میں دستخط کیے تھے۔
2018 کے انتخابات کے بعد حکمران تحریک انصاف اور اپوزیشن کی پارٹیوں کے مابین تعلقات کی کہانی بالکل مختلف ہے۔ ان کے درمیان مخاصت کا آغاز مذکورہ انتخابات کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا کیونکہ اپوزیشن کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھاکہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو دھاندلی اور انتخابی عمل میں مدد اور مداخلت کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ حکومت‘ خصوصاً وزیراعظم عمران خان کے نزدیک اپوزیشن میں شامل جماعتیں کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور غیرقانونی طور پر اثاثے بنانے کے جرم کے مرتکب ہیں اور حکومت کے خلاف ان کے اتحاد کا مقصد اپنی کرپشن چھپانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ حکومت کیجانب سے اپوزیشن کو قانون سازی کے عمل میں شریک نہ کرنے اور احتساب کے نام پر اپوزیشن رہنمائوں کو مہینوں جیل میں بند کرنے سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہوا۔
گزشتہ سال 11 سیاسی جماعتوں‘ جن میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن بھی شامل تھیں‘ کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد کے قیام سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی میں ایک اور نیا موڑ آیا کیونکہ پی ڈی ایم نے اپنے مقاصد میں اولین ترجیح حکومت کے خاتمے کو دے رکھی تھی۔ اس کے جواب میں پی ڈی ایم کے چھاتے تلے جمع اپوزیشن جماعتوں خصوصاً نون لیگ کے رہنمائوں کو وزیر اعظم‘ ان کی پارٹی اور حکومت کے تمام سطحوں کے عہدیدار اور ترجمان کرپٹ‘ لٹیروں کا ٹولہ کہہ کر پکارتے رہے۔ گزشتہ مارچ سے پی ڈی ایم اندرونی اختلافات کی وجہ سے غیرفعال ہے اور حکومتی ارکان کے بیانات کے مطابق اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم کے نزدیک پی ڈی ایم حکومت کیلئے پہلے خطرہ تھی‘ اور نہ ہی اب ہے‘ لیکن الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن حکومت کی دعوت پر اس کے ساتھ بات چیت اور تعاون کرنے کیلئے کس طرح آمادہ ہو سکتی ہے؟ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جن مسائل یعنی انتخابی اصلاحات پر حکومت اپوزیشن کو مذاکرات کیلئے دعوت دے رہی ہے‘ ان پر موخرالذکر کے تحفظات سے قطع نظر فریقین کے مابین دیگر مسائل زیادہ گہرے اور بنیادی ہیں‘ مثلاً ہر ادارے کو پابند کرناکہ وہ اپنی قانونی اور آئینی حدود سے باہر کردار ادا کرنا بند کرے‘ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی بالادستی قبول کرے اور خارجہ و داخلہ امور پر پالیسی سازی کے شعبے میں پارلیمنٹ کے کنٹرول کو قبول کرے‘ اس کیلئے ناصرف حکومت اور اپوزیشن بلکہ دیگر سٹیک ہولڈرز کے درمیان جب تک ڈائیلاگ نہیں ہوتا‘ ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی نون لیگ کی رائے ہے کہ جب تک اس قسم کا ڈائیلاگ منعقد نہیں ہوتا‘ انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں‘ لیکن حکومت اس قسم کے ڈائیلاگ کے امکان کو رد کر چکی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے عدم تعاون کی صورت میں یک طرفہ قانون سازی (صدارتی آرڈیننسز کی صورت میں) جاری رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ میرے خیال میں موجودہ حکومت کی مدت کے باقی دو برس بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین پہلے جیسی محاذ آرائی میں ہی گزر جائیں گے۔ حکومت کو بھی اس بات کا یقین ہے‘ اس لئے مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پر حملے بھی جاری ہیں‘ جن کی موجودگی میں فریقین کے مابین تعاون تو بہت دور کی بات ہے‘ بات چیت کا بھی کوئی امکان نہیں!