وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو ملک کو 'ون پوائنٹ ایجنڈے‘ پر عمل کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بالترتیب شریف برادران اور زرداری خاندان سے نجات دلا کر ان پارٹیوں کی قیادت سیکنڈ کیڈر کے رہنمائوں کے ہاتھ میں دے دی جائے۔
خاندانی یا موروثی سیاست جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بھارت‘ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ اور سری لنکا میں بھی متعدد بار اقتدار میں رہنے والی سیاسی پارٹیوں (بالترتیب کانگرس‘ نیپالی کانگرس‘ عوامی لیگ اور سری لنکن فریڈم پارٹی) کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخصیت یا خاندان کے گرد سیاسی پارٹیوں کا ظہور جنوبی ایشیا کی مخصوص سماجی تاریخی عوامل کا رہینِ منت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ خاندان یا موروثی سیاست جنوبی ایشیا میں رو بہ زوال ہے اور بعض ملک مثلاً نیپال‘ بھارت اور سری لنکا میں ماضی کی ہردلعزیز پارٹیاں اب دوسری‘ تیسری بلکہ چوتھی پوزیشن پر آ چکی ہیں‘ مگر بعض ملکوں مثلاً بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایسی پارٹیاں اب بھی طاقتور ہیں‘ البتہ انہیں چیلنجز کا سامنا ہے‘ کیونکہ خاندانی یا موروثی سیاست کو جمہوریت کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے‘ لیکن وزیر موصوف شریف برادران اور زرداری خاندان کی سیاست سے بے دخلی کی خواہش کا ایک بالکل مختلف پیرائے میں اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ٹاپ قیادت میں تبدیلی کی بات غالباً اس لئے کی ہے کہ وہ ان دونوں پارٹیوں کی موجودہ قیادت کو حکمران پاکستان تحریک انصاف کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ سیاسی حریف کی حیثیت سے انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ ان دونوں خاندانوں کو سیاست سے بے دخل کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگائیں اور اس طرح شریف برادران اور زرداری خاندان کو بھی برابر کا حق حاصل ہے کہ وہ وزیر موصوف کو سیاسی مسابقت میں شکست دیں‘ لیکن فواد چودھری صاحب سے گزارش ہے کہ آپ کی پارٹی گزشتہ سات برسوں سے شریف برادران خصوصاً نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہیں وزارتِ عظمیٰ سے معزول کیا گیا‘ عمر بھر کیلئے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی اور دو مقدمات میں بھاری جرمانے کے ساتھ سات اور دس سال کی جیل کی سزا دی گئی۔ عوام کی نظروں سے گرانے کیلئے میڈیا پر انہیں چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا‘ کرپٹ اور بھگوڑا کہہ کر پکارا جاتا رہا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ سیاست سے بے دخل ہو گئے ہیں؟ اس کے برعکس نہ صرف سیاست میں ان کا اثرورسوخ موجود ہے بلکہ ان کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اب تک متحد ہے۔ جس احتساب کے نام پر میاں نواز شریف‘ شہباز شریف اور مریم نواز کے خلاف مقدمات بنائے گئے اور جیل میں ڈالا گیا‘ عوام کی نظروں میں وہ اپنی کریڈیبلٹی کھو چکا ہے۔ پی ڈی ایم سے پی پی پی اور اے این پی کی علیحدگی کے بعد حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا مگر گزشتہ چند ماہ میں ملک کو درپیش مسائل کے حل میں ناکامی پر اپوزیشن نے جس طرح حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی حکومت کی ہر کوشش کو جس طرح ناکام بنایا ہے اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ اپوزیشن نہ صرف متحد ہے بلکہ موثر کردار بھی ادا کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن اپنے اس موثر کردار کو قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی قیادت میں ادا کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم سے علیحدگی کے باوجود پی پی پی اور اے این پی کی طرف سے قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد اور مکمل حمایت کے اظہار نے شریف برادران کی سیاست میں مضبوط حیثیت کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔
تاریخی عمل میں افراد سے آئیڈیاز کا کردار زیادہ اہم ہوتا ہے۔ یونانی فلسفی افلاطون نے ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ اس نے اسے عملی شکل دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا لیکن فلسفہ‘ سیاست‘ تعلیم اور فطرت کے بارے میں اس کے نظریات نے سائنس اور سماجی علوم کے ارتقا اور ترقی میں ایک انقلابی کردار ادا کیا۔ کارل مارکس کی زندگی میں اس کے نظریات کے مطابق کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب اس کی وفات کے 34 سال بعد 1917ء میں وقوع پذیر ہوا لیکن اس کا کریڈٹ مارکس کے نظریات کو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ 1949ء میں چین میں کمیونسٹ انقلاب کے حوالے سے بھی مارکس کے نظریات کو نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاریخ میں افراد ان ا فکار‘ نظریات اور اصولوں کے حوالے سے زندہ رہتے ہیں‘ جن کی انہوں نے ساری زندگی پاسداری کی ہو۔ ایسے لوگوں کے سیاسی منظر نامے سے غائب ہونے سے تاریخ کا ارتقائی عمل رک نہیں جاتا بلکہ ان افراد کے کردار سے آگے بڑھتا ہے‘ کسی شخص کی خواہش یا مفاد پر مبنی نہیں۔ اس لئے جو لوگ چند افراد یا خاندانوں کو ہٹا کر تاریخی عمل کی سمت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ اسے واضح کرنے کیلئے کسی دور یا بہت پیچھے کی مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں جنرل ایوب‘ جنہوں نے 1958ء میں حکومت پر قبضہ کیا تھا‘ نے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے اور مطلق العنانیت کے ساتھ حکومت کرنے کے دوران جس ایک شخص کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا اور اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ اس شخص کا نام تھا حسین شہید سہروردی۔ ایوب خان کی آمرانہ حکومت کی مخالفت کرنے والے اور لوگ بھی تھے‘ اور ایک لولی لنگڑی اپوزیشن بھی تھی لیکن سہروردی ایوب خان کی نظروں میں خصوصی طور پر کھٹکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سہروردی 1956ء کے آئین کے تحت پاکستان کے پہلے قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بلند پائے کے وکیل اور شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آبادی کے لحاظ ملک کے سب سے بڑے صوبے مشرقی پاکستان میں سیاسی طور پر وہ ہردلعزیز تھے۔ انہوں نے پاکستان کے اتحاد کی خاطر 1956ء کے آئین کو مشرقی پاکستان کے ان عناصر کیلئے بھی قابلِ قبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جو پارلیمنٹ میں آبادی کی بنیاد پر نمائندگی اور مشرقی پاکستان کیلئے زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکز کو صرف تین شعبے یعنی دفاع‘ کرنسی اور خارجہ امور دینے پر بضد تھے۔ ایوب خان نے سہروردی کو ہراساں بھی کیا‘ ان کو جیل میں بھی ڈالا اور انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے 'قبر تک ان کا پیچھا کرنے‘ کا اعلان کیا۔ سہروردی اپنی جان کو خطرے میں محسوس کر کے ملک سے باہر چلے گئے اور بیروت میں پناہ لی جہاں 1963ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ عوامی لیگ (جو اس وقت بنگلہ دیش میں برسرِ اقتدار ہے) آج تک ایوب خان کو سہروردی کی موت کا ذمہ دار گردانتی ہے۔ سہروردی کی وفات پر ایوب خان نے اطمینان کا سانس لیا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے‘ لیکن تاریخ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ سہروردی کی وفات کے بعد عوامی لیگ کی قیادت پارٹی کے سیکرٹری جنرل شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ میں آ گئی‘ جس کے چھ نکات نے پاکستان کو دولخت کرنے کی راہ ہموار کی۔
جو لوگ کسی فرد یا خاندان کو اپنے اقتدار کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اسے سیاست سے بے دخل کر کے بلا روک ٹوک حکومت کرنے کے متمنی ہیں‘ انہیں پاکستان کے اس دور کی مثال سے سبق سیکھنا چاہئے۔ جو لوگ شریف برادران یا زرداری خاندان کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھ کر سیاست سے انہیں بے دخل کرنا چاہتے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی جگہ لینے والے حکمرانوں کے لئے زیادہ بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔