آزاد جموں و کشمیر کی مجلسِ قانون ساز کے انتخابات 25 جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں۔ 53 اراکین پر مشتمل اس ایوان میں برتری حاصل کرنے کیلئے ویسے تو بہت سی سیاسی پارٹیاں اور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن اصل مقابلہ تین بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہو گا۔ اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جس نے 2016ء کے انتخابات میں 45 میں سے 31 سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب آزاد جموں و کشمیر میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی اور مسلم کانفرنس سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے اقتدار کی جنگ میں اکثر کامیاب ہوتی تھی لیکن 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اس پابندی کو ختم کر دیا۔ اس کی وجہ غالباً مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1964ء سے بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات تھے‘ جن کے نتیجے میں مقبوضہ ریاست کو 1953ء کے معاہدے کے تحت حاصل داخلی خود مختاری بہت محدود ہو گئی تھی۔ سردار عبدالقیوم خان کی مسلم کانفرنس اور آزاد کشمیر کی دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھٹو حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی باری باری حکومتیں چلی آ رہی ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو ریاست میں حکومت بنانے کا ابھی تک موقع نہیں ملا۔ 2016ء کے انتخابات میں اس نے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن شکست کھائی۔ گلگت بلتستان کی طرح آزاد جموں و کشمیر میں بھی عام طور پر وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کی پاکستان میں حکومت ہو۔ اس کی وجہ صاف نظر آتی ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر‘ دونوں کا اقتصادی لحاظ سے پاکستان پر بہت انحصار ہے اور پاکستان کی مرکزی حکومت کی مالی امداد کے بغیر دونوں علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے گزشتہ انتخابات میں مریم نوازاوربلاول بھٹو زرداری نے اپنی اپنی پارٹی کی بھرپور مہم چلائی تھی۔ بلاول بھٹو تو پورا ایک مہینہ گلگت بلتستان میں مقیم رہے اور اس دوران انہوں نے عوام سے ووٹ کی پُر زور اپیل کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنا کر جائیں گے۔ اسی طرح مریم نواز نے بھی متعدد جلسوں سے خطاب کیاجن میں حاضرین کی تعداد دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ (ن) لیگ گلگت بلتستان میں میدان مار لے گی‘ لیکن کامیابی تحریکِ انصاف کے حصے میں آئی کیونکہ (ن) لیگ سے وابستہ سیاسی اثر و رسوخ کے مالک اراکین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جماعت چھوڑ کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ حالانکہ گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی لیکن 2018ء کے بعد چونکہ پاکستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہو چکی تھی‘ اس لئے عوام کا رجحان تحریکِ انصاف کی طرف ہو گیا۔
گلگت بلتستان کی طرح آزاد جموں و کشمیر میں بھی انتخابات کے انعقاد کے موقع پر سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رجحان نمایاں رہا ہے۔ تحریکِ انصاف آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری خود اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ انہوں نے اپنا سیاسی سفر لبریشن لیگ سے شروع کیا لیکن اس سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور جولائی 1996ء سے جولائی1997ء تک آزاد کشمیر کے وزیر اعظم رہے۔ 2016ء میں انہوں نے تحریکِ انصاف کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ آزاد جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست کا ایک مخصوص پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں برادری ازم کا بہت اہم کردار ہے اور اس کی وجہ سے آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کامیاب ہو جاتی ہے۔ ان آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اس پارٹی میں شامل ہو جاتی ہے جسے پاکستان کی مرکزی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ پاکستان کے انتخابات کی طرح آزاد جموں و کشمیر میں بھی انتخابات متنازع ہونے سے محفوظ نہیں رہتے اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر دھاندلی اور حکومتی ذرائع استعمال کرنے کا الزام عائد کرتی رہتی ہیں۔ صورتحال کے زیادہ ابتر ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے برعکس آزاد جموں وکشمیر کا الیکشن کمیشن طاقتور نہیں اور نہ ہی اتنے وسائل کا مالک ہے کہ فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ اس کے باوجود آزاد جموں و کشمیر میں بلا تعطل پارلیمانی انتخابات خوش آئند اور ریاست میں جمہوری نظام کے بتدریج استحکام کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور اگر یہ پریکٹس جاری رہی تو آزاد جموں و کشمیر میں بھی ایک ایساسسٹم قائم ہو جائے گا جو ریاست جموں و کشمیر میں ترقی کے عمل کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
آزاد جموں و کشمیر میں مجلسِ قانون کے انتخابات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں‘ جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی حکومت کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے باعث حالات انتہائی سنگین اور خطرناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ لاک ڈائون‘ سخت پابندیوں اور بھاری تعداد میں فوج اور سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے باوجود بھارت کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچا کر وادی میں جنگِ آزادی کو ختم کرنے کی وزیر اعظم مودی کی تازہ ترین کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے۔ مجاہدین کی سرگرمیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں تیزی آ چکی ہے۔ اس کے جواب میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں عوام پر جبر و تشدد میں اضافہ ہو چکا ہے اور آئے روز کشمیری نوجوانوں کی شہادت کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایسے موقع پر آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائیں‘ لیکن ابھی تک انتخابی دنگل کی اطلاعات زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کے حق میں فضا ہموار کرنے کیلئے وفاقی وزیر امین گنڈاپور پہلے سے ہی مظفر آباد میں موجود ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ متعدد تقریبات سے خطاب کر چکے ہیں۔ (ن) لیگ نے بھی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے اور توقع ہے کہ مریم نواز عنقریب آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کر دیں گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کشمیر میں مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے جو بیانات جاری کئے ہیں‘ (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف کی طرف سے ان پر رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست محض پاکستانی سیاست کی ایکسٹینشن ہو گی کیونکہ ان تقاریر میں آزاد کشمیر کو درپیش بنیادی مسائل مثلاً بے روزگاری‘ پسماندگی‘ غربت اور دیگر شعبوں میں ترقیاتی اقدام کی عدم موجودگی پر بات نہیں کی جاتی۔ ایک جائزے کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں تقریباً ایک چوتھائی آبادی غربت کا شکار ہے۔ پاکستان میں اوسطاً اگر 1127 افراد کو ایک ڈاکٹر کی خدمات میسر ہیں تو آزاد کشمیر میں 4799 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔ ریاست میں ابھی تک 50 فیصد لوگ پائپ واٹر کی سہولت سے محروم ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 13 فیصد ہے جو پاکستان میں اوسط شرح سے دُگنی ہے۔ یہ صورتِ حال ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں پڑھے لکھے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے اور محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں جا کر اپنی محنت کی کمائی پاکستان بھیج کر حکومتِ پاکستان کو خطیر رقم زرِ مبادلہ مہیا کرتی ہے۔