امریکی ذرائع کے مطابق افغانستان سے فوجی انخلا 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور باقی کام بھی امسال 30 اگست تک پورا کر لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے‘ جس کا خدشہ مختلف حلقوں کی جانب سے مسلسل ظاہر کیا جا رہا تھا۔ ملک میں خانہ جنگی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں شدت آ چکی ہے۔ افغان حکومت کے ایک دعوے کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے اور ہلاک ہونے والے شہریوں میں عورتوں اور بچوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔
افغان حکومت اور امریکہ نے اس قتل و غارت کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دی ہے اور کہا ہے کہ وہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات اور گزشتہ برس 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں سے پھر گئے ہیں اور جنگ بندی یا افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھنے کے بجائے دیہی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اب شہروں کا محاصرہ کر رہے ہیں‘ لیکن امریکہ اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے تحت افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کچھ عرصہ پہلے قطر کے اعلیٰ حکام سے بات چیت کی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق جس کا مقصد طالبان کو ان کے وعدے یاد دلا کر اس بات پر راضی کرنا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن طاقت کے استعمال سے قائم نہیں ہو سکتا‘ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف مذاکرات اور پُرامن طریقے سے ہی ممکن ہے۔
امریکہ کی اس پالیسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بریف کیا اور بتایا کہ افغانستان میں طاقت کے بل پر قائم کی جانے والی حکومت کو نہ تو امریکہ اور نہ ہی بین الاقوامی برادری تسلیم کرے گی۔ افغانستان کے متحارب گروپوں خصوصاً طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں جو بھی حکومت قائم ہو گی‘ اسے بین الاقوامی برادری کی طرف سے وسیع پیمانے پر امداد کی ضرورت ہو گی‘ مگر یہ امداد صرف اسی صورت دستیاب ہو سکتی ہے اگر افغانستان میں قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حکومت قائم ہو اور اس حکومت کو افغان عوام کی حمایت بھی حاصل ہو۔
دوسری جانب افغانستان کے ہمسایہ ممالک یعنی پاکستان‘ ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے علاوہ روس اور چین نے بھی افغانستان میں بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر آپس میں صلاح مشورے شروع کر دیئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی اور کئی اہم علاقائی رہنمائوں سے ملاقات اور بات چیت کی‘ پھر ازبکستان میں وزیر اعظم عمران خان کے وفد میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے افغان وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی اور افغان حکومت کو ملک میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا یقین دلایا۔ جوں جوں امریکی فوجی انخلا اپنے اختتام تک پہنچ رہا ہے‘ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوششوں کا فوکس اب علاقائی ملکوں کی طرف شفت ہو رہا ہے‘ اور یہ عین منطقی اور قدرتی ہے‘ کیونکہ افغانستان میں جنگ کے شعلے تیز ہوئے تو ان کی حدت سب سے زیادہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں ہی محسوس ہو گی۔
تاجکستان کے بعد ایران نے بھی افغان جنگ کے ممکنہ اثرات کو اپنے اپنے ملکوں میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے سرحدوں پر فوجیں جمع کر دی ہیں۔ تاجکستان تو عملی طور پر افغان جنگ کے نتائج سے متاثر ہو چکا ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان کے ساتھ سب سے طویل سرحد رکھنے والے اس ملک کو افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے سکیورٹی کے شدید خطرات لاحق ہیں‘ اس لیے حفاظتی اقدامات کے طور پر اس نے سرحدوں پر اپنی افواج بھی جمع کر دی ہیں۔ پچھلے دنوں تاجکستان کے ساتھ افغان علاقوں میں طالبان کی یلغار کے سامنے پسپا ہونے والے افغان فوجی تاجکستان میں داخل ہو گئے تھے۔ اس قسم کے واقعات کی آئندہ روک تھام کیلئے تاجکستان روس کے ساتھ مل کر اپنے سرحدی دفاع کو مستحکم کر رہا ہے۔ روس کے ساتھ تاجکستان نے دفاعی معاہدہ کر رکھا ہے اور اس معاہدے کے تحت تاجکستان میں روس نے ایک بڑا فوجی اڈا قائم کر رکھا ہے۔ روس کے علاوہ تاجکستان نے علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی صلاح مشورے کے اقدامات تیز کر دیئے ہیں۔ حال ہی میں تاجکستان کے وزیر دفاع جنرل شیر علی مرزا نے پاکستان کا دورہ کیا تھا‘ اور اس دورے کے دوران انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اور آرمی چیف بھی تاجکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ افغانستان میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کی وجہ سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے درمیان صلاح مشورے کا جو سلسلہ جاری ہے‘ تاجکستان کے وزیرِ دفاع کا دورہ پاکستان اس کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت جنوبی اور وسطی ایشیاء کے ممالک کی ایک کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی ہے۔ پاکستان نے بھی افغانستان پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا منصوبہ تیار کیا تھا؛ تاہم ازبکستان میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد اس کانفرنس کو ملتوی کر دیا ہے۔
یہ محسوس کرتے ہوئے کہ افغانستان میں جنگ تیز ہونے کی وجہ سے ہمسایہ ممالک میں اضطراب بڑھ رہا ہے‘ طالبان نے بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ ایرانی حکام‘ جن میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بھی شامل تھے‘ کے ساتھ بات چیت کے دوران طالبان نے یقین دلایا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایرانی حکام کی طرف سے طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ جنگ کے بجائے پُرامن مذاکرات کے ذریعے افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ طالبان کے ایک ایسے ہی اعلیٰ سطح کے وفد نے افغانستان کے ایک ہمسایہ ملک ترکمانستان کا بھی دورہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں پچھلے دنوں افغانستان کے عوام‘ ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کے خدشات کو دور کرنے کے لیے طالبان کی طرف سے با ضابطہ طور پر اعلان جاری کیا گیا تھا کہ وہ جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کو ترجیح دیں گے اور وہ بزورِ طاقت کابل پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے‘ مگر ان اعلانات کے باوجود بیشتر مبصرین افغانستان میں جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل کے بارے میں پُر امید نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں طالبان کا پلڑا بھاری ہے اور افغانستان کی سرکاری افواج کے خلاف ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں جنگ بندی اور پُرامن مذاکرات میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں۔ دوسرے‘ طالبان اب بھی افغان حکومت کو ایک غیر قانونی حکومت اور غیر ملکیوں کی ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور کسی صورت میں بھی وہ اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر تیار نہیں۔ تیسرے‘ طالبان اپنی سابقہ حکومت ''امارات اسلامی‘‘ کو بحال کرنے پر بضد ہیں جبکہ پاکستان سمیت روس‘ چین اور وسطی ایشیا کے ممالک ''امارات اسلامی افغانستان‘‘ یعنی خالصتاً طالبان کی حکومت کے قیام کی مخالفت کر چکے ہیں اور اسے ناقابلِ قبول قرار دے چکے ہیں۔
ان حالات میں زیادہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ افغانستان میں جنگ اور خونریزی جاری رہے گی اور اگر اس میں مزید تیزی آئی تو پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔