وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں وسطی ایشیا کے ایک اہم ملک ازبکستان کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے میں وزیراعظم نے نہ صرف 'وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان مواصلاتی‘ تجارتی اور معاشی روابط (Connectivity)‘ پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی بلکہ ازبکستان سے دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کیلئے متعدد معاہدات اور ایم او یوز پر دستخط بھی کئے۔ اگرچہ قازقستان وسطی ایشیا کے ممالک میں پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے‘ لیکن افغانستان کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے ازبکستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں نے آزادی کا اعلان کیا‘ تو پاکستانیوں نے اس کا بڑے جذباتی انداز میں خیرمقدم کیا تھا‘ کیونکہ برِصغیر میں اسلام کو پھیلانے والے صوفیا میں سے اکثر وسطی ایشیا سے ہی آئے تھے۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں نے بھی نئے اور آزاد مسلم ممالک کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر سفارتی‘ تجارتی‘ ثقافتی تعلقات قائم کرنے کا آغاز کر دیا۔ دوطرفہ بنیادوں پر دوستانہ اور قریبی تعلقات کو وسعت اور گہرائی فراہم کرنے کیلئے پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے اعلیٰ حکام نے ایک دوسرے کے متعدد بار دورے بھی کئے۔ باہمی دلچسپی اور علاقائی و عالمی اہمیت کے حامل مسائل پر بھی پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کی اعلیٰ سطح کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین متواتر رابطہ رہتا ہے۔ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ اقتصادی تعاون اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے 1992 سے اب تک پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان درجنوں معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ان پر عمل درآمد کیلئے ادارہ جاتی فریم ورکس بھی موجود ہیں‘ لیکن کیا وجہ ہے کہ نہ تو پاکستان کی وسطی ایشیا کی ریاستوں اور نہ ہی وسطی ایشیا کی ریاستوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے شعبے میں کوئی نمایاں پیشرفت ہوئی ہے؟ دوطرفہ تجارت کا حجم بھی خاصا کم ہے۔ ازبکستان کے ساتھ ہماری دوطرفہ تجارت کو ہی لے لیجئے‘ گزشتہ مالی سال کے دوران اس کا کل حجم 112 ملین ڈالر تھا۔ اگر اس کا ماضی سے موازنہ کیا جائے تو اس میں اضافے کا رجحان نظر آتا ہے‘ کیونکہ 2018 میں یہ حجم 98 اور 2017 میں صرف 36.6 ملین ڈالر تھا‘ لیکن دونوں ملکوں میں اس حجم کو بڑھانے کی استعداد موجود ہے‘ جسے بتیس سال گزرنے کے باوجود پوری طرح بروئے کار نہیں لایا جا سکا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ چھ برسوں میں دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تجارت کا حجم ایک بلین ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی علاقائی تجارت میں کمی کا رجحان صرف وسطی ایشیا کی ریاستوں تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں چین کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کی علاقائی درآمدی اور برآمدی تجارت میں کمی ہوئی ہے‘ مثلاً 2011 میں پاکستان کی اپنے ہمسایہ ملکوں کو برآمدات‘ اس کی کل برآمدات کا 12.2 فیصد تھیں‘ جبکہ 2018 میں یہ حصہ گھٹ کر 7.4 فیصد رہ گیا۔
5 اگست 2019 کے بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدام کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ تجارت بند ہے‘ مگر دونوں ملکوں میں تجارت میں کمی کا رجحان 2011 اور 2012 سے ہی شروع ہو گیا تھا‘ اور اس کی سب سے اہم وجہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے سے پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی تھی۔ اگرچہ ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی دوطرفہ تجارت میں کمی کے الگ الگ اسباب ہیں‘ مگر یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پاکستان کی دو طرفہ تجارت کا حجم گزشتہ دس برسوں میں کم ہو کر ایک تہائی رہ گیا ہے۔
وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں پاکستان کیلئے سب سے موزوں راستہ وہ ہے جو افغانستان سے گزرتا ہے‘ کیونکہ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں تاجکستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے ملتی ہیں۔ پاکستان ان ریاستوں تک رسائی حاصل کرکے روس تک اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کا سلسلہ بڑھا سکتا ہے۔ یہی وہ مقصد ہے‘ جس کے حصول کیلئے 2010 میں ''افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ کی رعایت پر نظرثانی کرتے ہوئے نئے معاہدے میں افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کی غرض سے رسائی کی دفعہ شامل کی گئی۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے واہگہ‘ اٹاری کے راستے افغانستان کو اپنے ٹرکوں میں بھارت کو تجارتی اشیا بھیجنے کی رعایت دی تھی۔ افغانستان اب تک اس رعایت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تجارتی اشیا سے بھرے ٹرک پاکستان سے گزر کر واہگہ‘ اٹاری تجارتی پوسٹ پر پہنچتے ہیں اور وہاں سامان اتار کرواپس آجاتے ہیں کیونکہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو پاکستانی علاقے سے گزار کے افغانستان میں تجارتی اشیا پہنچانے کی اجازت نہیں ہے‘ لیکن پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان نے اپنی سرزمین سے تجارت کی غرض سے پاکستان کو وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی نہیں دی کیونکہ اس کیلئے اس نے پاکستان کے راستے بھارت سے افغانستان کو تجارتی سامان بھیجنے کی رعایت کا مطالبہ کیا ہے۔ چونکہ پاک بھارت تعلقات کے پیشِ نظر پاکستان کی کوئی بھی حکومت بھارت کو یہ رعایت نہیں دے سکتی‘ اسلیے گزشتہ سال ستمبر میں پاکستان نے چین کے راستے وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تجارتی رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیلئے پاکستان شاہراہ قراقرم کے ذریعے گلگت بلتستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ‘ جس کی سرحدیں وسطی ایشیا کی ریاستوں سے ملتی ہیں‘ کو ایک متبادل راستے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان‘ چین‘ قازقستان اور کرغزستان پر مشتمل ایک چہار فریقی میکنزم پہلے سے موجود ہے اور ازبکستان نے اس میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
پاکستان یا جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارتی روابط میں اب تک نمایاں اضافہ نہ ہونے کی وجہ افغانستان کی داخلی صورتحال ہے۔ 2014 میں چھپنے والی ''یو ایس ایڈ‘‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق معاہدوں کے باوجود پاکستان میں وسطی ایشیا کی ریاستوں کی طرف سے سرمایہ کاری نہ کرنے کی بڑی وجہ ملک میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال ہے۔ پاکستان کی طرف سے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کیلئے از سرِ نو کوششوں کے پسِ پردہ یہ یقین ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے ان کوششوںکی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی پاکستان کی اس رائے سے متفق ہیں‘ لیکن پاکستان اور وسطی ایشیا کے مابین تجارتی تعلقات کے راستے میں افغانستان میں سکیورٹی کا فقدان واحد وجہ نہیں ہے۔ افغانستان کی طرح وسطی ایشیا کے ممالک بھی افغانستان اور پاکستان کے راستے جنوبی ایشیا کے باقی ممالک خصوصاً بھارت کے ساتھ تجارت کی سہولت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ایک خبر کے مطابق دورے کے دوران ازبکستان نے پاکستان سے پاکستان کے راستے بھارت سے تجارت کی رعایت کی بھی درخواست کی‘ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کے معمول پر آنے کے بعد ہی ایسی درخواست پر غور ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان گیس پہنچانے کیلئے منصوبے کی مثال موجود ہے۔ جب تک اس منصوبے میں بھارت کو شامل نہیں کیا گیا‘ اس منصوبے کی تعمیر شروع نہیں کی جا سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وسطی اور مغربی ایشیا کے ممالک بھارت کو اہم اور منافع بخش منڈی سمجھتے ہیں‘ اور ان ممالک کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بھارت تک توسیع دینے کا ہمیشہ مطالبہ کیا جائے گا۔ پاکستان کی ہر حکومت کو یہ امر پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔