افغانستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے آدھے سے زیادہ حصے پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں۔ یہ حصہ 400 میں سے 200 سے زائد ضلعوں پر مشتمل ہے جبکہ 34 میں سے آدھے سے زیادہ (18) صوبائی دارالحکومت ان کے محاصرے میں ہیں۔ امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ طالبان ایک حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں‘ اور ان کا ٹارگٹ دارالحکومت کابل کو باقی ملک سے کاٹنا ہے۔ صورتحال کو جنرل ملی نے افغان فوج اور سکیورٹی فورسز کے لیے ایک کڑا امتحان قرار دیا ہے‘ اور وہ بھی ایک حکمت عملی کے تحت طالبان کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ لیکن اس دوران طالبان کے سامنے ایک اور چیلنج آ کھڑا ہوا ہے‘ اور وہ ہے بین الاقوامی رائے عامہ۔ عالمی برادری طالبان کی حالیہ پیش قدمی کو نہ صرف تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے بلکہ انہیں سخت ہدفِ تنقید بنا کر روکنے اور افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کابل حکومت سے مذاکرات پر زور دے رہی ہے۔ کابل میں مقیم ایک درجن سے زائد سفارتی مشنز نے ایک مشترکہ بیان میں طالبان کی جارحانہ اور برق رفتار پیش قدمی کو فوری طور پر روکنے پر زور دیا ہے۔ جن 15 ملکوں کے سفارت خانوں نے یہ مشترکہ بیان جاری کیا ہے‘ ان میں امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ ڈنمارک‘ فن لینڈ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان‘ سپین‘ جمہوریہ چیک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ بیان میں طالبان کی طرف سے سرکاری فوجوں پر حملوں کے سلسلے کی مذمت کرتے ہوئے طالبان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ دوحہ مذاکرات میں کئے گئے وعدوں کے برعکس طاقت کے زور پر افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کے دوران طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان کے دیگر دھڑوں کے ساتھ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مذاکرات کریں گے بلکہ افغان سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں کی شدت میں کمی بھی کر دیں گے‘ لیکن اس سال مئی سے افغان جنگ میں شدت آ گئی ہے اور اس کی بڑی وجہ افغان طالبان کی طرف سے جنگی کارروائیوں میں اضافہ ہے‘ حالانکہ امریکہ نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امن مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار ہونے کا ایک موقع دینے کے لیے اس سال موسمِ گرما میں اپنا روایتی اوفینسیو (Offensive) ملتوی کر دیں‘ لیکن ان اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے طالبان اپنی جارحانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جن میں انہیں غیر متوقع طور پر کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
مشترکہ بیان میں طالبان کو یاد دلایا گیا ہے کہ فوجی کارروائیوں سے ان کے وعدوں کی نفی ہوتی ہے‘ جن کے ذریعے عالمی برادری کو افغانستان کا مسئلہ پُرامن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا یقین دلایا گیا تھا۔ مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی اندھا دھند کارروائیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں افغانستان کے بے پناہ شہری ہلاک ہو رہے ہیں‘ بے شمار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں‘ عمارتیں جل کر راکھ ہو رہی ہیں‘ اہم انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے اور ذرائع مواصلات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ تین ملکوں کے سفار خانوں کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں تعمیروترقی اور انفراسٹرکچر یعنی سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں‘ ہسپتالوں‘ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر جو اربوں ڈالر خرچ کئے‘ اب ان کے سامنے یہ سب کچھ جنگ کی تباہ کاریوں کی نذر ہو رہا ہے۔
ان کی طرف سے تشویش کا اظہار اور جنگ بندی کا مطالبہ توقع کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح کا ایک بیان ترکی کے صدر طیب اردوان کی طرف سے بھی جاری کیا گیا ہے۔ اپنے بیان میں ترک صدر نے نہ صرف طالبان سے جنگی کارروائیاں بند کرنے بلکہ مئی کے بعد قبضے میں لیے گئے تمام علاقے خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ کابل میں مقیم سفارت کاروں کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مقابلے میں ترک صدر کے بیان میں طالبان کو براہ راست اور شدید تر انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ صدر اردوان نے طالبان پر یہ الزام عائد کیا کہ اپنے افغان مسلمان بھائیوں کے ساتھ ان کا سلوک ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
صدر اردوان کا بیان اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے ترکی افغانستان میں قیامِ امن اور مصالحت کے لیے علاقائی کوششوں کا محور رہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ہارٹ آف دی ایشیا کانفرنس یا استنبول پراسیس ہے‘ جسے ترکی نے 2011 میں پاکستان کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا۔ اب تک اس پراسیس کے تحت 9 اجلاس ہو چکے ہیں۔ اس عمل میں بطور ممبر حصہ لینے والے ممالک کی تعداد 15 ہے جبکہ 17 دیگر ممالک اور 12 علاقائی اور بین الاقواامی تنظیموں کی اسے حمایت حاصل ہے۔ اس کا مقصد باہمی اعتماد کی بنیاد پر افغانستان اور خطے میں امن‘ سلامتی‘ استحکام اور علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ امسال اپریل میں امریکہ اور اقوامِ متحدہ کے ایما پر افغانستان میں جنگ بندی اور ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے ایک انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد بھی ترکی میں ہونا تھا‘ مگر طالبان کی طرف سے شرکت سے انکار کی وجہ سے یہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکی۔ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے حتمی اعلان کے بعد جنگ تیز ہونے پر وسطی ایشیا کی ریاستوں اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک‘ جن میں ایران اور پاکستان بھی شامل ہیں‘ کے درمیان صلاح مشورے میں ترکی سرگرمی سے حصہ لیتا رہا ہے۔ نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے ترکی کا ایک دستہ افغانستان میں بین الاقوامی امن فوج کاحصہ رہا ہے اور ابھی تک افغانستان میں مقیم ہے۔
پچھلے دنوں طالبان نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے فوجی دستے کو نیٹو کی دیگر فوجوں کی طرح افغانستان سے نکال لے‘ ورنہ اسے حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا‘ لیکن ترکی نے نہ صرف طالبان کی وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے فوجی دستے کو افغانستان سے ابھی تک واپس نہیں بلایا بلکہ وہ کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے اور اس کی حفاظت کے لیے 500 ترک فوجیوں پر مشتمل ایک دستے کے قیام کے لیے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت بھی کر رہا ہے۔ ترکی کی طرف سے طالبان پر سخت تنقید اور مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ افغانستان کی موجودہ بحرانی کیفیت کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے‘ کیونکہ ترکی مغربی ایشیا کے خطے کا ایک بااثر ملک ہے۔ اس کی طرف سے طالبان کے رویے کی کھلم کھلا مذمت نہ صرف خطے میں بلکہ افغانستان کے اندر بھی طالبان مخالف عناصر کو حوصلہ دے گی۔
پاکستان نے اگرچہ ابھی تک طالبان کی پیش قدمی کی مخالفت نہیں کی‘ لیکن اسلام آباد فوری جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کا خواہش مند ہے۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خیل زاد وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ طاقت کے زور پر اور زبردستی حکومت قائم کر کے افغانستان میں دیرپا امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں‘ روس اور چین افغانستان میں جنگ جاری رہنے پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کیونکہ اس کے اثرات ان کی سرحدوں کے اندر بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ یوں افغان طالبان کی طرف سے طاقت کے بل پر افغانستان میں سابقہ ''اماراتِ اسلامی‘‘ کے سیٹ اپ کو بحال کرنے کے خلاف ایک عالمی رائے عامہ ابھر رہی ہے‘ بتدریج طاقت پکڑ رہی ہے اور اس کی جانب سے جنگ کی تباہ کاریوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طالبان سے فوجی کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس مطالبے کے حق میں آواز بلند کرنے والے ممالک میں نیٹو کولیشن کے ممالک بھی شامل ہیں۔ اس مطالبے کو یکسر نظر انداز کرنے سے طالبان کو اندرونی اور بیرونی‘ دونوں محاذوں پر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔