پاکستان کے سرکاری حلقوں اور میڈیا میں آج کل پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بڑے زوروشور سے زیرِ بحث ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوری 2021 میں یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اب تک صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ تک نہیں کیا۔ اگرچہ ان کی انتظامیہ کے اہم عہدے دار مثلاً سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن اور چیف آف جائنٹ سٹاف کمیٹی جنرل ملی اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے ٹیلی فون پر بات کر چکے ہیں اور دونوں ملکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بھی گزشتہ دو ماہ کے دوران دو بار مل چکے ہیں‘ لیکن دو سابقہ اتحادیوں میں برف پگھلتی نظر نہیں آئی‘ بلکہ سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن نے حال ہی میں بھارت کا دو روزہ دورہ کیا‘ مگر پاکستان آئے بغیر واپس چلے گئے۔ اس سے قبل موسمیاتی تغیر و تبدل پر عالمی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کو نہ بلا کر اور کانفرنس سے قبل سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیلی کا مغربی اور جنوبی ایشیا کے دورے میں پاکستان کو شامل نہ کرنا ایسے واقعات ہیں‘ جو پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر باعثِ تشویش یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور وہاں جنگ کی شدت میں اضافے جیسے اہم مسائل پر بھی امریکہ نے پاکستان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی‘ حالانکہ جس پروسیس کے نتیجے میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا پر گزشتہ سال فروری میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین معاہدہ طے پایا تھا‘ اسے آگے بڑھانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ اور اس کردار کو امریکہ اور خطے کے دیگر ممالک برملا تسلیم بھی کرتے ہیں۔ اس وقت بھی افغانستان میں جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کو حل کرنے میں مدد دینے میں جو ملک سب سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتا ہے‘ وہ پاکستان ہی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کے سیاسی حلقوں کے مطابق صدر جو بائیڈن نے پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔
اب تک امریکہ کی طرف سے اس موضوع پر جو بھی رد عمل آیا ہے وہ وائٹ ہائوس کے ایک ترجمان کا ایک بیان ہے کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں‘ جن سے نئے امریکی صدر نے ابھی تک رابطہ قائم نہیں کیا (ان میں پاکستان بھی شامل ہے) اور جب ضرورت پڑی رابطہ قائم کر لیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سٹریٹیجک پارٹنر‘ دہشتگردی کے خلاف قریبی اور نان نیٹو اتحادی‘ پاکستان‘ امریکہ کی نظر میں جنوبی ایشیا کا اب ایک ایسا ملک ہے‘ جس سے امریکہ ابھی رابطہ قائم کرنا ضروری نہیں سمجھتا‘ البتہ جب ضرورت پڑے گی تو رابطہ قائم کرے گا۔ اس وقت تک پاکستان کو خاموش رہنا‘ اور صبر سے کام لینا ہو گا‘ مگر پاکستان کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ کیونکہ محض افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر نہیں بلکہ سیاسی‘ معاشی اور سکیورٹی کے حوالوں سے بھی پاکستان اور امریکہ کے مابین مضبوط دوطرفہ تعلقات‘ پاکستان کے قومی مفادات کیلئے بہت ضروری ہیں۔ سرد مہری کے باوجود اس وقت بھی دونوں ملکوں میں متعدد شعبوں مثلاً تعلیم‘ ثقافت‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ صنعت‘ زراعت‘ توانائی وغیرہ میں قریبی تعاون جاری ہے۔ اس وقت بھی امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی طلبا امریکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
دفاعی نقطہ نظر سے جو علاقے پاکستان کیلئے اہمیت کے حامل ہیں مثلاً بحر ہند‘ بحیرہ عرب اور خلیج فارس‘ ان میں موجود امریکی فوجی طاقت کا کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دنیا کی سب سے طاقت ور فوجی قوت ہونے کے علاوہ امریکہ ابھی تک سب سے مضبوط اور بااثر معیشت بھی ہے۔ مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تاریخ میں اس سے بھی بڑی اور طاقتور سلطنتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں‘ لیکن فی الوقت یہ ایک بالکل سامنے کی حقیقت ہے کہ پاکستان کی قومی ترقی میں پارٹنر کی حیثیت سے امریکہ کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیںکہ پاکستان کو امریکہ پر اپنا انحصار کم اور معیشت میں خود کفالت حاصل کرنے کیلئے متبادل ذرائع تلاش نہیں کرنے چاہئیں‘ بلکہ کافی عرصہ سے یہ عمل شعوری طور پر جاری ہے اور جاری رہنا چاہیے۔ اس کی مثال دفاع کے شعبے میں امریکہ پر پاکستان کے انحصار کی بتدریج کمی سے دی جا سکتی ہے۔ کسی زمانے میں ہتھیاروں کی فراہمی کیلئے امریکہ پاکستان کا واحد سورس تھا۔ اب ہماری تینوں مسلح افواج کے تقریباً 75 فیصد ہتھیار چین سے خریدے جا رہے ہیں‘ البتہ معیشت کے شعبے میں خود کفالت کی منزل کی طرف ہماری رفتار بہت سست ہے۔ بیرون ملک کام کرنیوالے پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کے بعد پاکستان کیلئے زرِمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ امریکی‘ یورپی اور امریکہ کے اتحادی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی تجارتی منڈیاں ہیں۔ پاکستان کی معاشی صحت کا اب بھی خاصا انحصار آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی فراہم کردہ امداد پر ہے۔ اس لیے پاکستان کو اپنے قومی مفاد پر سمجھوتہ کیے بغیر خارجہ تعلقات میں حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے۔
امریکہ کیساتھ دفاعی اور معاشی شعبوں میں قریبی تعاون پر مبنی ہمارے تعلقات کی بنیاد 1953 میں رکھی گئی تھی‘ اور یہ وہ زمانہ ہے جب 1949 میں چینی انقلاب اور 1951 میں کوریا کی جنگ کی وجہ سے کمیونزم اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے مابین محاذ آرائی (کولڈ وار) کا فوکس یورپ سے شفٹ ہو کر ایشیا میں آ گیا تھا‘ اور امریکہ کو اس خطے میں چین کی صورت میں نام نہاد ''نئے خطرے‘‘ سے اپنے مفادات کو بچانے کیلئے اتحادیوں کی ضرورت تھی‘ مگر یہ ضرورت یکطرفہ نہیں تھی۔ پاکستان کی معیشت بھی سخت دبائو میں تھی‘ خصوصاً ملک ایک شدید غذائی بحران‘ خصوصاً گندم کی قلت کا شکار تھا۔ 1953 میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ کی کوششوں سے امریکہ پاکستان کو فوری طور پرگندم سپلائی کرنے پرراضی ہو گیا تھا۔ اس سے قبل صدر آئزن ہاور کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان فاسٹر ڈیوبس پاکستان کا دورہ کر چکے تھے اور پاکستان نے کولڈ وار میں امریکہ کا اتحادی بننے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بدلے امریکہ پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے پرراضی ہوگیا تھا‘ لیکن جب 1961 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر جان ایف کینیڈی کا دور شروع ہوا تو پاک امریکہ تعلقات میں وہ گرمجوشی نہ رہی۔ اس کی وجہ سوویت یونین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کی شدت میں کمی تھی‘ مگر دونوں ملکوں میں تنائو کا اصل سبب 1963 میں پاک چین دوستی کا قیام تھا۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان کی توقعات کے برعکس امریکہ نے بھارت کے خلاف امداد کرنے کے بجائے پاکستان کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کر دی جس سے عام رائے عامہ امریکہ کے سخت خلاف ہوگئی۔ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے پاکستان کو امریکی ہتھیاروں کی سپلائی بحال تو ہوگئی‘ مگر ضیاالحق اور مشرف کے ادوار میں قریبی تعاون اور سٹریٹیجک پارٹنرشپ کے باوجود‘ بداعتمادی کی خلیج بدستور حائل رہی۔
پاکستان اور امریکہ‘ دونوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ان اسباب کی نشاندہی کرکے انہیں دور کریں‘ جن کی بنا پر پاک امریکہ تعلقات عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) سے وابستہ رہ کر ایک عرصے تک واشنگٹن میں قیام پذیر رہے۔ وہ امریکی کانگریس‘ میڈیا‘ تھنک ٹینکس اور موجودہ و سابقہ انتظامیہ کی سوچ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایک حالیہ بیان میں موصوف خود کہہ چکے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں افغانستان میں امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے باوجود بین الاقوامی برادری کا رویہ پاکستان کے بارے میں متعصبانہ رہا‘ اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ بات تو درست ہے‘ لیکن کیا اس کی وجوہات معلوم کرنے کی کبھی کوشش کی گئی؟