افغانستان میں 20 سالہ جنگ کا جس انداز میں خاتمہ ہوا‘ وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ خود طالبان کو بھی توقع نہیں تھی کہ اتنی آسانی اور تیزی کے ساتھ پورے افغانستان اور دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیں گے۔ اس ماہ کے اوائل میں جب افغانستان کے 400 سے زائد اضلاع ان کے قبضے میں آ گئے تھے اور افغان فوج لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈال رہی تھی تو طالبان بھی اس اچانک کامیابی پر حیران تھے۔ گزشتہ سال فروری میں جب امریکہ کے سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ نے امسال مئی تک امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا تو مقامی اور بین الاقوامی مبصرین کی غالب تعداد کی رائے یہ تھی کہ افغانستان میں 1974 کے ویت نام کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی اور طالبان کو افغانستان کی سرکاری افواج اور عوام کے ایک بڑے حصے کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جس سے یہ مطلب اخذ کیا جا رہا تھا کہ امریکی افغانستان کو ایک خوفناک اور طویل خانہ جنگی میں جھونک کر روانہ ہو رہے ہیں‘ لیکن جس برق رفتاری کے ساتھ طالبان نے ضلعی کے بعد صوبائی اور اس کے بعد ملک کے دارالحکومت پر قبضہ کیا‘ اس نے ان تمام تجزیہ نگاروں‘ جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے‘ کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ طالبان نے نہ صرف 10 دن کی قلیل مدت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا بلکہ دارالحکومت کابل کے ایئرپورٹ پر 1974 کے سائیگون سے بھی بدترصورتحال ہے۔ ملکی اور غیرملکی نامہ نگاروں کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق کابل میں لوگ مایوسی اور خوف کا شکار ہیں۔ ملک سے بھاگ جانے کے خواہشمند لوگوں کی بڑی تعداد کابل ایئرپورٹ کے رن ویز پر کھڑی ہے‘ جس کی وجہ سے بہت سی ایئرلائنز‘ جن میں پی آئی اے بھی شامل ہے‘ کو اپنا آپریشن بند کرنا پڑا ہے۔
بین الاقوامی برادری اس افراتفری کی صورتحال کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال رہی ہے‘ جس نے افغانستان سے اپنی فوجوں کو عجلت میں نکال کر غیرذمہ داری کا ثبوت دیا۔ الزام اور ردِ الزام کے اس شور میں امریکہ کے سابق صدردونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جو بائیڈن کی جگہ اگر وہ آج امریکہ کے صدر ہوتے تو امریکی افواج کے انخلا کو بہتر انداز میں عمل میں لاتے اورافغانستان میں نہ تو طالبان اتنی تیزی سے ملک پر قبضہ کر سکتے اور نہ افراتفری کی حالت پیدا ہوتی۔ انہوں نے امریکی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری صدر جو بائیڈن پر ڈالتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے‘ لیکن صدر جو بائیڈن کا جواب آنے سے پہلے ہی امریکی میڈیا نے ٹرمپ کو کھری کھری سناتے ہوئے سابق امریکی صدر کو یاد دلایا کہ طالبان کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر29فروری 2020 کو خود انہوں نے دستخط کئے تھے۔ اس وقت امریکی میڈیا کے متعدد حلقوں اور سابق سفارتکاروں نے اس معاہدے کو ایک تباہی (Disaster) قرار دیتے ہوئے ان تمام حالات کی پیشگوئی کی تھی‘ جو آج افغانستان اور خصوصاً کابل ایئرپورٹ پر نظرآ رہے ہیں۔
ٹرمپ کی افغان پالیسی کو امریکی مفادات کیلئے تباہ کن قرار دینے میں افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر ریان سی کروکر پیش پیش ہیں۔ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد انہوں نے سابق صدر پر الزام عائد کیا تھاکہ انہوں نے صدارت کی دوسری ٹرم حاصل کرنے کے شوق میں امریکہ کے نہایت اہم مفادات کو دائو پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ مکمل طور پر یکطرفہ ہے اور ٹرمپ نے طالبان کی تمام شرائط تسلیم کرکے صدر اشرف غنی کی حکومت کیلئے کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیا۔ چند دیگر نمایاں امریکی ماہرین نے بھی ٹرمپ کو یاد دلایا کہ صدر جو بائیڈن نے تو اسی معاہدے پر عمل درآمد کیا ہے جس پر ان (ٹرمپ) کی حکومت نے دستخط کئے تھے‘ بلکہ جو بائیڈن نے تو معاہدے پر عمل درآمد کو موخر کیا اور ڈیڈ لائن مئی کے بجائے 31 اگست تک لے گئے۔ جو بائیڈن کو البتہ اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا ر ہا ہے کہ وہ افغان فوج کی لڑنے کی صلاحیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے‘ اور انہوں نے ڈیڈلائن سے قبل ہی انخلا کے عمل کی رفتار کو تیز کردیا۔ مبصرین کے نزدیک صدر جو بائیڈن کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ طالبان کو ملک میں جنگ بندی اور اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پرآمادہ نہ کر سکے۔
ٹرمپ کے ساتھ معاہدے پردستخط کے بعد طالبان نے امریکی افواج اور ان کے ٹھکانوں پر حملے تو بندکردیئے‘ مگر سرکاری فوجوں اور تنصیبات پر حملے جاری رکھے تھے۔ مبصرین کے نزدیک افغان فوج کے حوصلے تو اسی وقت پست ہو گئے تھے‘ جب ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے معاہدے پردستخط کئے تھے‘ کیونکہ افغان افواج کیلئے امریکی فضائی سپورٹ بہت اہم تھی۔ امریکہ کے موجودہ سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے جس سرعت کے ساتھ کابل پر قبضہ کیا‘ وہ خود ان کیلئے باعثِ حیرت ہے۔ امریکہ اور صدر اشرف غنی کو یقین تھا کہ افغان نیشنل آرمی‘ طالبان کا مقابلہ کرے گی اور طالبان کو اتنی آسانی کے ملک پر قبضہ نہیں کرنے دے گی۔ بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکہ فوجی انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا‘ مگر امریکی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بلنکن کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا: یہ کہنا غلط ہے کہ امریکہ کو اندازہ نہیں تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد کیا صورتحال ہو گی۔ پنٹاگون کے اہلکار نے کہاکہ امریکی وزارت دفاع اوبامہ کے دورسے ہی وارننگ دیتی چلی آرہی تھی کہ کسی سیاسی سمجھوتے کے بغیر افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا تباہ کن ثابت ہوگا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے جانا ہی تھا اور صدرٹرمپ کی حکومت کی طرح جو بائیڈن انتظامیہ بھی فوجی انخلا پر تلی ہوئی تھی۔ صدربائیڈن کے بیانات سے اس رائے کی تصدیق ہوتی ہے۔
صدر جو بائیڈن کے فیصلے کے پس منظر میں کارفرما دو اور محرکات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس دن امریکی سینیٹ نے کئی ٹریلین ڈالر کے خرچ سے امریکہ میں سڑکوں‘ شاہراہوں اور پلوں کی تعمیرکا منصونہ منظورکیا اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے اراکین نے 3.3 ٹریلین ڈالر مالیت کا غربت دور کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا‘ اسی روز امریکیوں سمیت تمام دنیا کو یقین ہو گیا کہ امریکہ اب افغانستان میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ ایک ٹریلین ڈالرخرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان میں طالبان کو فیصلہ کن شکست نہ دی جا سکی۔ دوسری بات یہ ہے اور جیساکہ امریکی حکام بشمول سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کے بیانات سے ظاہر ہے‘ امریکہ اپنی توانائیاں اور وسائل غلط جگہ پر خرچ کر رہاتھا‘ اس کیلئے اصل خطرہ چین کی ابھرتی ہوئی قوت اور اثرورسوخ ہے‘ جس کے ذریعے چین ان تمام علاقوں پر‘ بقول امریکیوں کے‘ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے‘ جو روایتی طورپر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے زیرِ کنٹرول رہے ہیں۔ اس لئے سیکرٹری بلنکن کے مطابق امریکہ کو افغانستان سے اپنا دامن چھڑاکر طالبان کے خلاف خرچ ہونے والی توانائیوں اوروسائل کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنے کیلئے ری لوکیٹ (Relocate) کرنا چاہئے۔ ہلیری کلنٹن سے انتونی بلنکن تک امریکہ کا ارادہ تھا کہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا‘ مگرافغانستان سے جائے گا نہیں۔ اس مقصد کیلئے اس نے افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کر دیئے مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جن کیلئے امریکہ افغانستان کے دروازے بندکرنا چاہتا تھا یعنی چین اور روس‘ آج ان کے کابل میں سفارت خانے کھلے ہیں اورکام کررہے ہیں جبکہ امریکہ کو اپنا وسیع سفارت خانہ بند کرنا پڑا ہے۔