افغانستان کی موجودہ غیریقینی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے 'انتظار کرو اور دیکھو‘ کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے‘ وہ بالکل درست ہے‘ لیکن 15 اگست کے بعد افغانستان میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ اور ان تبدیلیوں کے جواب میں پاکستان کے اندر سے جو آوازیں بلند ہورہی ہیں‘ وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اس مسئلے پر ایک واضح‘ غیرمبہم اوردوٹوک موقف اختیار کیا جائے۔ یہ موقف نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی مقاصد یعنی ملک کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ بلکہ ان اصولوں کے دفاع کا بھی عکاس ہونا چاہئے جن پر مملکتِ پاکستان کا ڈھانچہ کھڑا ہے اور وہ اصول ہیں جمہوریت‘ آئین کی بالادستی‘ قائدِ اعظم کے فرمودات کے مطابق مذہبی انتہا پسندی سے گریز‘ اخوت اور برداشت کا جذبہ۔ آج سے 72 سال قبل پاکستان کے عوام نے قراردادِ مقاصد کے تحت ہمیشہ کیلئے فیصلہ کر لیا تھاکہ ریاست پاکستان کے اختیارات یعنی اقتدارِ اعلیٰ اس کے اصل مالک یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس امانت ہے‘ جسے قرآن اور حدیث کے احکامات اور ہدایات کی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کرنے کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ اس طرح قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کو نئی ریاست کی ایک اہم بنیاد قرار دے دیا گیا تھا۔ ملکی تاریخ میں متعدد بار اس اصول سے روگردانی کی کوشش کی گئی‘ لیکن پاکستان کے عوام نے جدوجہد کے ذریعے ہر بار اس اصول کو منوایا کہ حکومت بنانے یا ہٹانے کا حق صرف انہیں حاصل ہے۔
آج ایک بار پھر اس عزم کے اعادے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا سیاسی اور سماجی نظام جمہوریت‘ آئین کی بالادستی اور پولیٹیکل پلورل ازم پر مبنی ہوگا۔ اس قسم کے واضح‘ دوٹوک اورغیرمبہم اعلان کیلئے سب سے مناسب فورم پارلیمنٹ ہے کیونکہ یہ کروڑوں عوام کا منتخب ادارہ ہے اور اس کی طرف سے جاری ہونے والا ایسا اعلان نہ صرف ہماری سرحدوں سے باہر بلکہ سرحدوں کے اندر بھی معاندانہ عناصر کیلئے ایک سخت تنبیہ ہوگا کہ پاکستانی قوم اپنے تمام تروسائل اور توانائیوں کے ساتھ ان اقداراور اصولوں کا بھرپور دفاع کرے گی جن کی خاطر اس کے بہادر فوجی جوانوں اورافسروں‘ پولیس اور پیراملٹری فورسز کے سپاہیوں اور سب سے بڑھ کر نہتے اور معصوم عوام نے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ قوم کو حق پہنچتا ہے کہ اس کے ووٹوں سے منتخب حکومت اسے اپنی مغربی سرحدوں سے پار حالیہ دنوں میں ہونے والے تمام واقعات اور تبدیلیوں سے نہ صرف آگاہ کرے بلکہ قومی سلامتی کیلئے ان تبدیلیوں کے مضمرات کا طویل المیعاد تناظرمیں جائزہ لے کر متفقہ موقف تشکیل دے تاکہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو جو ان واقعات اور تبدیلیوں کی غلط تشریح کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
افغانستان سے امریکیوں کے اخراج کے بعد وہاں طالبان قابض ہوگئے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ساری دنیا تسلیم کررہی ہے۔ معاہدہ بون 2001 کے تحت ملک میں حکومت اور ریاست کا جو ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تھا‘ وہ دھڑام سے زمین بوس ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ طالبان کی طرف سے ابھی تک کوئی حکومتی ڈھانچہ کھڑا نہیں کیا گیا‘ تاہم انہوں نے امارات اسلامیہ افغانستان کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے اور یہ اعلان بھی کہ افغانستان میں اس نئی ریاست کی بنیاد مذہب پر ہوگی نہ کہ جمہوریت پر۔ طالبان کے ایک سینئر رہنما نے یہ اعلان کرتے ہوئے واضح کیاکہ ملک میں جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں‘ اس پر کسی قسم کی بحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 2001 میں طالبان کی حکومت کو طاقت کے ذریعے ختم کیا گیا تھا اور 20 سال بعد طالبان نے طاقت کے ذریعے ہی دوبارہ اقتدار پر قبضہ کیا ہے؛ تاہم ان کی طرف سے امارات اسلامیہ افغانستان کی بحالی کے اعلان پر ملک کے اندر اور باہر تحفظات کا اظہارکیا جارہا ہے‘ اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اعلان طالبان کی طرف سے اس سے قبل کرائی گئی یقین دہانیوں کی نفی کرتا ہے۔
کابل میں داخل ہونے کے بعد طالبان کی طرف سے دیگر اعلانات کے علاوہ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ریاست یا اختیارات پر طالبان اپنی اجارہ داری قائم نہیں کریں گے بلکہ افغانستان میں ایک انکلوسیو (Inclusive) حکومت قائم کی جائے گی‘ لیکن طالبان کی واپسی کے بعد افغانستان کی راج نیتی سے جمہوریت کی بے دخلی سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہاں کی بعض سیاسی قوتیں نئے نظام کا حصہ نہ بن سکیں گی۔ شمالی اتحاد کے ایک اہم رہنما اور افغانستان کے سابق وزیر داخلہ محمد یونس قانونی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ اگر طالبان نے افغان ریاست کیلئے سابقہ امارات اسلامی کے فریم ورک پر اصرار کیا تو انکی پارٹی کا طالبان کے ساتھ حکومتی اشتراک ممکن نہیں ہوگا۔ یوں افغانستان میں کچھ عرصہ تک غیریقینی کی صورتحال برقرار رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے افغانستان کے اندرونی حالات پر تبصرہ کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لیا جارہا ہے‘ مگر یہاں ایسے عناصر موجود ہیں‘ جنہوں نے جمہوری اصولوں پر مبنی ملک کے سیاسی اور سماجی نظام کی مخالفت اور اسے ختم کرنے کے ارادے کو کبھی مخفی نہیں رکھا۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی اور اماراتِ اسلامی کی بحالی سے ان عناصر نے ایک دفعہ پھر بغلیں بجانا شروع کر دی ہیں۔
جس طرح 2010 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت سیاسی اور عسکری قیادت نے متفقہ طورپر ان عناصر کے بیانیے کو رد کرکے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا‘ اسی طرح آج بھی پاکستانی ریاست کی اصل بنیاد اور نوعیت کو واشگاف الفاظ میں بیان کرکے ان عناصر کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں اور عوام کی ترقی‘ فلاح اور تحفظ کیلئے آئین کی بالادستی ضروری ہے۔ اس قسم کا موثر پیغام صرف اور صرف پارلیمنٹ کی طرف سے جاری کیا جا سکتا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے اور عوام کے نمائندوں کو افغانستان کی صورتحال‘ جو خود حکومت کے بیان کے مطابق تیزی سے بدل رہی ہے‘ پراعتماد میں لینے کا مطالبہ کر رہی ہے‘ حکومت کا پارلیمنٹ کی طرف رجوع کرنے سے احتراز بلا جواز ہے۔ 15 اگست کے بعد افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو ایک بالکل نئی اور مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔ اب کسی طرف سے بھی پاکستان سے ''ڈومور‘‘ یا طالبان پردبائو ڈالنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ مطالبات بالکل فرسودہ اورغیرمتعلقہ ہو چکے ہیں۔ اب بڑی طاقتیں بشمول امریکہ طالبان کے ساتھ ڈیل کرنے میں پاکستان کی کسی طرح بھی محتاج نہیں‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ 15 اگست سے پہلے پاکستان کو افغانستان میں جو لیوریج حاصل تھا‘ یا دنیا سمجھتی تھی کہ پاکستان کو یہ لیوریج حاصل ہے‘ وہ ختم ہوچکا ہے۔ اب افغانستان کی گیم میں پاکستان سے کہیں زیادہ طاقتوراور بااثر کھلاڑی شامل ہوچکے ہیں۔ اس نئی گیم میں پاکستان کا کردارکیا ہوگا اورتیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان اپنے بنیادی قومی مفادات کا کیسے تحفظ کرسکتا ہے؟ یہ نئے سوالات ہیں اور اکیلے حکومت انکا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتی۔ اس کیلئے اجتماعی سوچ‘ عقل اور تجربے کی بنیاد پر ٹھوس تجاویز آگے لانے کی ضرورت ہے۔ میں حیران ہوں کہ چنددانشور حلقوں کی طرف سے بھی پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم کو استعمال میں لانے کا مشورہ غیرضروری اور بیکار قرار دیا جا رہاہے۔ عرض ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام رائج نہیں‘ جہاں صدر (انتظامیہ) کو خارجہ پالیسی پر کلیتاً کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے‘ جس میں انتظامیہ‘ مقننہ کیساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے‘ یعنی ہر قدم پر اس کی گائیڈلائنز کی محتاج ہوتی ہے۔ ماضی میں خارجہ پالیسی کی تشکیل اوراس کی سمت کے تعین کے عمل میں پارلیمنٹ کی بے دخلی کے نتائج سے قوم ناقابلِ تلافی نقصانات اٹھا چکی ہے۔