پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر (2010-2012) کیمرون منٹر سے ایک پاکستانی صحافی نے سوال کیا تھا کہ تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان نے ملک کو درپیش مسائل کے حل اور اسے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے جن عزائم کا اعلان کیا ہے‘ ان کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ امریکی سفیر نے جواب دیا تھا کہ عزائم (ٹارگٹ) تو بہت اچھے ہیں‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان کے حصول کیلئے لائحہ عمل کیا ہو گا؟ پی ٹی آئی کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے کے بعد آج جب اس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سفیر نے جو سوال اٹھایا تھا‘ وہ بالکل درست تھا۔ گزشتہ دس برسوں میں حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد ملک کی سیاست‘ ثقافت اور معیشت بدلنے کے لیے جو بلند بانگ دعوے خان صاحب نے کئے تھے‘ ان میں سے اکثر یا تو جزوی طور پر پورے ہوئے ہیں یا بالکل پورے نہیں ہوئے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک تقریب میں انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کی چند کامیابیوں کا بھی ذکر کیا۔ یہ کامیابیاں بلاشبہ اہم ہیں اور حکومت کو ان کا کریڈٹ ملنا چاہئے لیکن وزیراعظم جب قوم کو یہ بتاتے ہیں کہ مالی خسارہ کم ہوا‘ زرمبادلہ کے ذخائر اور سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم میں اضافہ ہوا تو عام آدمی پوچھتا ہے کہ ان کامیابیوں سے اسے کیا ریلیف ملا؟ روزمرہ ضرورت کی اشیا کی قیمتیں نیچے آنے کے بجائے آسمان کو کیوں چھو رہی ہیں؟ اگر وزیراعظم کے دعوے کے مطابق قومی معیشت مستحکم ہو کر آگے کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی ہے تو بیروزگاری اور غربت میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ یہ مانا جا سکتا ہے کہ کووڈ19 کی عالمگیر وبا نے دنیا بھر کی معیشت کو متاثر کیا‘ جس میں پاکستان بھی شامل ہے‘ لیکن ہمارے ارد گرد ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے کووڈ19 کے نقصان دہ اثرات کے باوجود اپنی معیشتوں کی شرح نمو میں کمی کو تیزی سے بحال کیا‘ مثلاً بھارت‘ بنگلہ دیش اور چین۔ زرِمبادلہ کے ذخائراور برآمدات میں اضافے سے ہماری کرنسی کی پوزیشن مضبوط ہونی چاہئے لیکن اس کے برعکس ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر متواتر گررہی ہے اور تاریخ کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف درآمدی اشیا‘ جن میں متعدد صنعتوں میں استعمال ہونے والی انتہائی ضروری خام اشیا اور مشینری بھی شامل ہے‘ کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ بیرونی قرضے بھی بڑھ رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ان تین برسوں میں یہ بنیادی فیصلہ تک نہیں کر سکی کہ قومی معیشت کو کس سمت میں چلانا ہے۔ حکومت کی گزشتہ تین برسوں کی معاشی پالیسیوں سے بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار تو خوش ہیں‘ مگر متوسط‘ نچلے متوسط اور غریب طبقات کے لوگ نالاں ہیں‘ کیونکہ اول الذکر کو خوش کرنے اور راضی رکھنے کیلئے مختلف صورتوں میں رعایات اور عنایات کی بارش ہو رہی ہے‘ لیکن اس کی قیمت باقی عوام کو مہنگائی‘ قوتِ خرید میں کمی اور افراطِ زر کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔
موجودہ حکومت کی معاشی حکمت عملی دو ستونوں پر کھڑی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیداوار بڑھائی جائے اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے لیکن انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ہمہ گیر ترقیاتی حکمت عملی‘ جس میں معاشی کے علاوہ دیگر پہلو مثلاً سماجی انصاف‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار شامل ہے‘ کے بغیر یہ اہداف کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی اور حکومت کے رہنما پچھلی حکومتوں پر الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہوں نے اپنے ذاتی‘ گروہی اور سیاسی مفادات کے لیے ریاستی اداروں کو تباہ کیا؛ چنانچہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان نے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کی سرکردگی میں ایک سیل قائم کیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں‘ لیکن اطلاعات کے مطابق استعفے سے پہلے انہوں نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا اوراس ضمن میں اپنی سفارشات پر مبنی ایک رپورٹ وزیراعظم کو دے دی تھی۔ اس رپورٹ کی سفارشات کیا ہیں اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا‘ لیکن گزشتہ تین برسوں میں پارلیمنٹ کو جس طرح نظر انداز کیا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق صرف اور صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے‘ لیکن حکومت نے قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کے بجائے بیشتر حالات میں صدارتی آرڈیننسوں سے کام لیا۔ یہ درست ہے کہ صدرکو غیرمعمولی اور ہنگامی حالات میں آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے اتنی بار قانون سازی کی کہ معلوم ہوتا ہے ملک پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی خطوط پر چلایا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ باقاعدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود ہوا کریں گے اور اراکینِ اسمبلی کے سوالات کے جوابات خود دیں گے‘ لیکن گزشتہ تین برسوں میں وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں حاضری کی شرح کا جائزہ لیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کے منشور میں وفاقِ پاکستان کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پارٹی کو ملک کے چار میں سے تین صوبوں پنجاب‘ کے پی اور بلوچستان میں حکومت کے ساتھ وفاقِ پاکستان کو مضبوط کرنے کا ایک نادرموقع ملا تھا‘ لیکن پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے صوبے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور وفاق کے مابین محاذ آرائی کی وجہ سے وفاق کمزور ہوا ہے۔ اس محاذ آرائی کی بنیاد متعدد مسائل ہیں مثلاً کراچی میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے رینجرز کے مینڈیٹ میں توسیع‘ پولیس کے اعلیٰ افسران کا تقرروتبادلہ‘ پانی کا مسئلہ اور قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو فنڈز کی ایلوکیشن؛ تاہم مرکز اور سندھ کے مابین چپقلش کی اصل بنیاد اٹھارہویں آئینی ترمیم پر اختلاف ہے۔ وزیراعظم کے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر بیانات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اور سندھ کے مابین اٹھارہویں آئینی ترمیم پر سخت اختلافات ہیں اور اول الذکر اس کا از سر نو جائزہ لینے کے حق میں ہے جبکہ سندھ کی حکمران پارٹی‘ پی پی پی‘ مرکز کی طرف سے اس مطالبے کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کے مترادف سمجھتی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کراچی میں امن و امان اور ترقیاتی منصوبوں کے مسئلے کے علاوہ مرکز اور صوبوں میں کووڈ19 کے معاملے پر بھی شدید اختلافات رہے ہیں۔ ان مسائل پر سندھ اور مرکز کے مابین گزشتہ تین برسوں میں اتنی کشیدگی رہی ہے کہ کئی بار صوبے میں گورنر راج کا اندیشہ پیدا ہو جاتا تھا‘ مگر وزیر اعظم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ سندھ میں ان کی اپنی پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرف سے پیہم مطالبے کے باوجود انہوں نے ملک کے اہم صوبے میں اس انتہائی اقدام سے احتراز کیا۔ میرے خیال میں معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں ناکامی کے علاوہ پی ٹی آئی کو مزید جس محاذآارائی کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ ملک کی خارجہ پالیسی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ الزام عائدکیا جاتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں پاکستان دنیا میں جتنا الگ تھلگ اور تنہا ہوا ہے‘ اس کی ملک کی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس کی سب سے نمایاں مثال کشمیر ہے۔ 5 اگست 2019کو بھارت کی جانب مقبوضہ کشمیر میں ایک غیرقانونی اقدام اور اس کے نتیجے میں اب تک کشمیری عوام کو محاصرے کی حالت میں رکھنے کے باوجود نہ تو اقوام متحدہ کا ادارہ مظلوم کشمیریوں کی امداد کو پہنچا اور نہ ہی کسی ملک نے کھل کرپاکستان کا ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں جو گرمجوشی تھی‘ وہ بھی نمایاں طور پر کم ہوئی؛ البتہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بدستور اچھے رہے ہیں اور روس کے ساتھ پاکستان کے روابط میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک مثبت پوائنٹ ہے۔