"DRA" (space) message & send to 7575

افغانستان کی کہانی ختم نہیں ہوئی!

31 اگست کی صبح کا نور پھیلنے سے پہلے کابل کے ہوائی اڈے سے امریکہ کے آخری سپاہی کی روانگی کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی‘ لیکن بیشتر مبصرین کی رائے میں افغانستان کی کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے‘ جو گزشتہ 20 برسوں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ‘ مشکل اور ایسے مضمرات کا حامل ہے جن کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
اکتوبر 2001 سے 31 اگست 2021 تک افغانوں نے ایک ایسی طاقت کے خلاف جنگ لڑی جس نے بزور ان کے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔ خوشحال خان خٹک نے کہا تھا 'پشتونوں اور افغانوں میں کوئی فرق نہیں‘ اس لیے امریکہ کے خلاف جنگ پشتونوں کی نہیں افغانوں کی جنگ تھی جو انہوں نے متحد ہو کر لڑی۔ امریکہ کے خلاف افغانوں کو متحد کرنا نسبتاً اس لیے آسان تھا کہ مقابلہ ایک غیرملکی طاقت سے تھا‘ جو نہ صرف مذہبی بلکہ نسلی‘ ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے بھی افغانوں سے مختلف تھی۔ قوم پرستی کے جذبے سے سرشار افغان قوم کے لیے ایک غیرملکی طاقت کا غلبہ ناقابلِ قبول تھا‘ اس لیے انہوں نے ماضی میں برطانیہ اور روس کی طرح افغانستان میں امریکی عزائم بھی ناکام بنا دیئے۔
افغان عوام مختلف قبائل‘ نسلی اور ثقافتی گروپوں اور مذہبی فرقوں میں منقسم ہیں‘ لیکن سب اپنے آپ کو افغان سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی بیرونی حملہ آور سے نبرد آزما ہونے کا مرحلہ آتا ہے تو سب افغان بلا لحاظ قبائلی‘ نسلی‘ لسانی اور مذہبی تفریق کے‘ متحد ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک مقابلہ کرتے ہیں‘ جب تک وہ غیرملکی طاقت کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور نہ کر دیں۔ برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ کو بھی اپنے حملوں کا یہی انجام دیکھنا پڑا‘ لیکن 31 اگست کے بعد طالبان کو ایک نئی اور مختلف صورت حال کا سامنا ہے۔ ان کا فریم آف مائنڈ وہی ہے‘ جسے امارتِ اسلامیہ افغانستان (1996 تا 2001) کے دوران تحریکِ طالبان افغانستان کے بانی ملا عمر نے تشکیل دیا تھا جبکہ گزشتہ 20 برسوں میں نہ صرف دنیا بلکہ افغان معاشرہ بھی بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ اس دوران 25 سال کی عمر تک کے مردوں اور عورتوں نے‘ جو کل افغان آبادی کے تقریباً نصف حصے پر مشتمل ہیں‘ ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جس کے نمایاں خدوخال میں جدید تعلیم‘ میڈیا کی آزادی‘ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال‘ خواتین کی بلا امتیاز تعلیم اور ملازمت‘ ایک جمہوری آئین‘ ووٹ دینے کا حق‘ کھیل‘ میوزک اور فنون لطیفہ سے لطف اندوز ہونا شامل ہیں۔ طالبان کے لیے یہ سب چیزیں اجنبی ہو سکتی ہیں اور ممکن ہے ان کے لیے ان کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر رہنا مشکل ہو‘ لیکن امن و امان قائم رکھنے کے لیے بہرحال کوئی درمیانی راستہ تو نکالنا ہی ہو گا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے‘ مگر سڑکوں‘ گلیوں اور چوراہوں پر ڈیوٹیاں دینے والے طالبان اہلکاروں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پہلی ڈگر پر گامزن نظر آتے ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے اعلیٰ قیادت کو حکم جاری کرنا پڑا کہ ملک میں ملازمت پیشہ خواتین فی الحال اس وقت تک گھروں میں رہیں جب تک اہلکاروں کو ان کے ساتھ ڈیل کرنے کی مناسب تربیت نہ دے لیں‘ لیکن طالبان نے امارت اسلامیہ افغانستان کا اعلان بھی کر دیا ہے اور ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ اس نئی ریاست میں جمہوریت‘ انتخابات‘ اپوزیشن کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ اس کے بعد اگر افغانستان کا ایک 20 سالہ فٹ بالر اپنے وطن سے بھاگ جانے کی کوشش میں ہوائی جہاز سے لٹک کر جان دے دیتا ہے تو کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔
امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے افغانستان سے اپنے اور ان افغان شہریوں‘ جن سے انہوں نے اپنے ساتھ لے جانے کا وعدہ کر رکھا تھا‘ کا انخلا مکمل کر لیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق اب بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسے افغان باشندے ہیں‘ جو ملک چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔ اب طالبان نے اعلان کیا ہے کہ بیرون ملک جانے کے لیے درکار ضروری کاغذات کے بغیر کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے ساتھ طالبان کی طرف سے قوم کے نوجوان پڑھے لکھے ہنرمند افراد کو ملک نہ چھوڑنے کی اپیل کی جا رہی ہے‘ اور یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں ترقی اور تعمیر کے عمل کو چلانے اور آگے بڑھانے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ طالبان نے اس انخلا‘ جسے اب برین ڈرین کا نام دیا جا رہا ہے‘ کو روکنے کے لیے ہوائی اڈے اور زمینی راستے بند کر دیئے ہیں۔ ہمسایہ ممالک نے بھی ان پر اپنے دروازے بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ صرف پاکستان میں چمن (بلوچستان) کے راستے افغان باشندوں‘ جن میں مرد‘ عورتیں اور بچے شامل ہیں‘ کی آمد جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکام بھی یہ راستہ بند کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس کے بعد افغان باشندوں کے لیے ملک چھوڑنے کے تقریباً تمام راستے مسدود ہو جائیں گے‘ مگرافغانستان سے انخلا پھر بھی نہیں رک سکے گا کیونکہ قندھار اور افغانستان کے کئی دیگر مقامات سے طالبان جنگجوئوں کے ہاتھوں سابق حکومت کی پولیس اور سپیشل فوج کے اراکین کے قتل کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں کالج اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اور مختلف شعبوں میں فعال کردار ادا کرنے والے نوجوان مردوں اور خواتین پر مبنی افغانستان میں ایک ایسی سوسائٹی پیدا ہوئی ہے جسے آزاد فضا میں سانس لینے کی عادت ہے‘ جو بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ اس کی سوچ اس کا رہن سہن اور زندگی ان سے پوری طرح متاثر ہیں۔ لاکھوں لوگوں پر مشتمل یہ سول سوسائٹی‘ جس نے آزاد میڈیا اور انٹرنیٹ کی سہولت کے ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی ہو‘ جو ووٹ کی طاقت سے آگاہ ہو اور جس کے دل میں اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور قوم کو ترقی یافتہ بنانے کے ارمان موجود ہوں‘ ماضی والے فریم ورک کے تحت زندگی کیسے گزار سکتی ہے؟ طالبان کو ان پڑھے لکھے‘ تربیت یافتہ‘ پروفیشنلز کا تعاون حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنا اور تبدیل کرنا پڑے گا‘ ورنہ افغان معاشرے میں ایک نیا تصادم جنم لے گا۔ یہ تصادم اس تصادم سے یکسر مختلف ہو گا‘ جس میں سے افغانستان کے عوام ابھی گزرے ہیں۔ اس تصادم میں طالبان کے مد مقابل امریکہ نہیں بلکہ ان کے ہم وطن افغان مرد و خواتین ہو سکتے ہیں‘ جو تاریخ کے پہیے کو پیچھے کی طرف دھکیلنے پر نہ صرف احتجاج کریں گے بلکہ ممکنہ طور پر مزاحمت بھی کریں گے۔ پاکستان کے چند صحافیوں نے طالبان حلقوں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے بعض اقدامات پرسوالات اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ اب تک طالبان کی طرف سے ان اختلافی آوازوں پر تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور نچلی سطح پر فعال طالبان اہلکاروں کو احتیاط اور برداشت سے کام لینے کی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں‘ لیکن اگر طالبان کی طرف سے میڈیا پر پابندیوں کو سختی سے نافذ کیا گیا‘ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا‘ آمدورفت اور اظہار خیال کو محدود کیا گیا اور خواتین کی تعلیم اور ملازمت کو نئی نسل کے لیے ناقابلِ عمل شرائط سے منسلک کیا گیا تو افغانستان میں تصادم کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی برادری‘ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور خود طالبان اس بات کے خواہش مند ہیں کہ افغانستان میں امن اور استحکام ہو‘ کیونکہ اس کے بغیر ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا‘ مگر یکطرفہ طور پر ریاستی ڈھانچے کا نفاذ اور ایک محدود سیاسی مطمح نظر پر انحصار ملک کو ایک دفعہ پھر تصادم اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں