کابل پر طالبان کو قبضہ کئے تین ہفتے ہو چکے ہیں مگر افغانستان میں مرکزی حکومت کے قیام کا اعلان گزشتہ رات ہی ہوا ہے۔ اس تاخیر کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بعض وجوہات کا برسر عام چرچا رہا ہے اور بعض پر راز کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ مرکز میں طالبان کی رسمی اور باقاعدہ حکومت کی کیا جلدی ہے‘ ملک میں صوبائی‘ ضلعی اور مقامی سطح پر معاملات احسن طریقے سے چل رہے ہیں۔ امریکہ اور افغان حکومت کے خلاف طویل گوریلا جنگ کے فائنل مرحلے میں طالبان نے ایک شیڈو (Shadow) گورنمنٹ بنا رکھی تھی۔ اس کے تحت صوبوں میں طالبان کے متوازی گورنر و ضلعی منتظم اور مرکز میں تمام اہم وزارتوں کے انچارج وزیر کام کر رہے تھے۔ سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور امریکیوں کے نکل جانے کے بعد طالبان کی اس شیڈوگورنمنٹ کے اعلیٰ حکام نے ہر سطح پر ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں اور اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے‘ لیکن اتنا کافی نہیں۔ صوبائی یا مقامی سطح پر حکومتی ڈھانچے‘ مرکزی حکومت جو ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کی اصل مالک ہوتی ہے‘ کا نعم البدل نہیں ہو سکتے‘ مرکزی حکومت کے بغیر افغانستان کی ریاست‘ خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو‘ بین الاقوامی سیاسی نظام کا رکن ہونے کی حیثیت سے اپنے مفادات کو فروغ نہیں دے سکتی تھی۔ اس رائے سے اتفاق کرنا بھی مشکل ہے کہ مرکزی حکومت کے بغیر بھی ملک میں سکون تھا اور امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بین الاقوامی میڈیا میں متعدد ایسے واقعات رپورٹ ہوئے‘ جہاں سابقہ حکومت کے اہلکاروں‘ افغان نیشنل آرمی کے افسروں کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ ہلاک بھی کیا گیا۔ ہرات اور کابل میں حال ہی میں خواتین کی طرف سے حقوق کے تحفظ کے حق میں مظاہرے اس بات کی دلیل ہیں کہ عوام میں طالبان کے سخت گیر اقدامات کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔
ایسے واقعات سے طالبان کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بین الاقوامی برادری کو دی جانے والی یقین دہانیوں کی نفی ہوتی ہے اور ان کی وجہ سے طالبان اور باقی دنیا کے تعلقات مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کو درپیش ان مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ ملا عمر اِن کے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اگر تحریک طالبان افغانستان کے بانی زندہ ہوتے تو طالبان کی حکومت کا اعلان 15 اگست کو ہی ہو جاتا یا کم از کم اس کی تشکیل میں اتنی دیر نہ لگتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کی موجودہ قیادت کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے دبائو کا سامنا ہے کہ ان کی حکومت وسیع البنیاد یعنی افغانستان کے تمام لسانی گروپوں کی نمائندہ ہو اور عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے اور اس امر کی یقین دہانی کرائے کہ دہشت گرد تنظیموں کو دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ افغان طالبان کی موجودہ قیادت نے 20 برس تک امریکہ اور سابق افغان حکومت کے خلاف جنگ میں گزارے ہیں۔ اس جنگ میں انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کے شہر‘ سڑکیں‘ پُل‘ ہسپتال تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ جنگجوئوں سے کہیں زیادہ عام شہری‘ جن میں مرد‘ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں‘ ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ کے فوجی انخلا اور افغان حکومت کے خاتمے کے بعد ان کو اب موقع ملاہے کہ وہ پُرامن ماحول میں اپنے ملک میں تعمیر و ترقی کے عمل کو شروع کر سکیں‘ لیکن اس کیلئے بین الاقوامی برادری کے خدشات کو دور کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف بین الاقوامی برادری کے خدشات ہیں اور دبائو ہے اور دوسری طرف امارت اسلامیہ افغانستان کے بنیادی اصول اور نظریہ ہے۔ طالبان اعلان کر چکے ہیں کہ ان پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کا بنیادی قانون شریعہ پر مبنی ہو گا۔ طالبان کے سامنے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ‘ اور جس کی وجہ سے حکومت سازی میں تاخیر ہوئی ہے‘یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے خدشات اور دبائو ‘ اور امارت اسلامیہ افغانستان کے بنیادی نظریے میں سے درمیانی راہ کیسے نکالی جائے تاکہ بین الاقوامی برادری بھی مطمئن ہو جائے اور تحریک طالبان افغانستان کی نظریاتی اساس بھی قائم رہے‘ لیکن اگر ملا عمر آج زندہ ہوتے تو طالبان کو اس مسئلے کو حل کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگتی کیونکہ امارت اسلامیہ افغانستان کے پہلے دور میں انہوں نے بین الاقوامی برادری یا کسی بڑی سے بڑی طاقت کی پروا کئے بغیر اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کئے اور پھر ان پر ڈٹے رہے تھے۔
اس کی ایک مثال بامیان میں بدھا کے 14 سو سال پُرانے مجسمے کو توڑنے کا واقعہ ہے۔ 2001 ء کے اوائل میں جب طالبان کی حکومت نے اسے توڑنے کا اعلان کیا تو پوری دنیا میں حیرانی‘ تشویش اور غصے کے ملے جلے جذبات کا ایک شور بپا ہو گیا کیونکہ اشوک کے زمانے میں ایک پہاڑی کو تراش کر یہ مجسمہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت کے آرٹ کا یہ شاہکار دنیا بھر میں بدھ مت کے ماننے والوں کیلئے ایک نہایت مقدس یادگار تھی۔ اس کی زیارت کیلئے بدھ مت کے پیروکار ہزاروں کی تعداد میں افغانستان آتے تھے۔ قدرتی طور پر جن ملکوں کی آبادی کی اکثریت بدھ مت کو ماننے والوں پر مشتمل ہے‘ یعنی جاپان‘ تھائی لینڈ‘ کمبوڈیا اور سری لنکا‘ ان کی طرف سے نہ صرف سخت تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ طالبان کی حکومت سے فیصلہ واپس لینے کی اپیل بھی کی گئی مگر ملا عمر نے ان اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ پھر مندرجہ بالا ممالک نے پاکستان کو اپروچ کیا۔
اس وقت یہاں پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ انہوں نے اپنے وزیر داخلہ معین الدین حیدر کو ایک وفد کے ساتھ افغانستان بھیجا تا کہ ملا عمر سے بات کر سکیں۔ خاکسار نے ایک ریسرچ پیپر کی تیاری کے سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے جنرل معین الدین حیدر سے ٹیلی فونک انٹرویو کیا تھا۔ ملا عمر سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے طالبان رہنما کو پہلے بین الاقوامی برادری کی تشویش سے آگاہ کیا۔ انہیں یہ بھی بتایا کہ سری لنکا اور جاپان کی طرف سے افغانستان کو جو اقتصادی امداد دی جا رہی ہے‘ وہ بند ہو جائے گی اور دنیا بھر میں طالبان کا امیج مجروح ہو گا‘ جس سے افغانستان کو بہت نقصان ہو گا۔ سب سے بڑھ کر دنیا بھر کی بدھ مت کی پیروکار آبادی مسلمانوں سے ناراض ہو جائے گی اور افغانستان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اس مجسمے کی وجہ سے جو سیاح آتے ہیں‘ ان کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ جنرل صاحب نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے صدر رفیق تارڑ کی جانب سے بھیجی گئی قرآن شریف کی فریم شدہ آیت ملا عمر کو پیش کی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ تم دوسروں کے جھوٹے خدائوں کو بھی برا بھلا مت کہو تا کہ وہ تمہارے سچے خدا کے خلاف بے ادبی پر نہ اتر آئیں۔ ملا عمر نے جلی حروف میں کتابت شدہ اورفریم شدہ یہ آیت پڑھی‘ اسے چوما اور آنکھوں سے لگایا اور پھر اسے ایک طرف رکھتے ہوئے یوں گویا ہوئے: میں اس بت کو گالی تو نہیں دے رہا بلکہ میں تو اسے توڑ رہا ہوں‘ قیامت کے روز جب میں خدا کے حضور پیش ہوں گا تو مجھ سے پوچھا جائے گا ''ملا عمر تم سے ایک بُت بھی نہ ٹوٹ سکا‘‘۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ جنرل معین الدین حیدر نے بتایا کہ ملا عمر نہایت مضبوطConviction کے مالک تھے‘ مگر ان کا وژن بہت محدود تھا‘ لیکن ان کی اپیل بہت طاقتور تھی۔ اگر آج ملا عمر زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ نہ صرف امارت اسلامیہ افغانستان کو اپنی اصل حالت میں بحال کرتے بلکہ انہیں عالمی برادری کے خدشات دورکرنے کیلئے یقین دہانیاں بھی نہ کرانا پڑتیں اور کابل پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد حکومت سازی میں بھی اتنی تاخیر نہ ہوتی۔