وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو اندرونی اور بیرونی کئی محاذوں پر اب بھی متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا ہے‘ مگر اپوزیشن کی صفوں میں بڑھتے ہوئے انتشار سے کرسیٔ اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ چھ ماہ قبل استعفوں کے مسئلے پر پی ڈی ایم سے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی علیحدگی کے بعد حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی دو سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے مابین الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا‘ جو اب تک جاری ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پی پی پی کی طرف سے تنقیدی بیانات کا باقاعدہ جواب نہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے‘ تاہم پی پی پی کے چیئرمین کی طرف سے مسلم لیگ (ن) پر سیاسی حملوں کے جواب میں موخرالذکر کی طرف سے بھی کبھی کبھی وضاحت اور طعنوں کی آمیزش پر مشتمل رد عمل آ جاتا ہے۔ الزام اور ردِ الزام کے اس کھیل میں حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنی انٹری ڈالی ہے۔ اگرچہ وہ اپنے ایک سابق بیان میں پیپلز پارٹی پر پی ڈی ایم کی پشت میں چھرا گھونپنے کا الزام لگا چکے ہیں‘ مگر حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کا نام لے کر ان پر پی ڈی ایم کی تقسیم کا ذمہ دار ہونے اور ایک سمجھوتے کے تحت 'کسی‘ کے ساتھ جا ملنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مولانا کے بیان سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کے حالیہ دورے کے دوران رحیم یار خان میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم پر منافقت کی پالیسی اختیار کرنے اور حکومت کا سہولت کار ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ چند ایک مواقع ایسے بھی آئے تھے جب ایسا معلوم ہوتا تھاکہ نہ صرف پی پی پی بلکہ اے این پی کی بھی پی ڈی ایم میں واپسی ہو جائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو مل کر ٹف ٹائم دینے کا جو اعلان کیا تھا‘ اس سے اس قیاس آرائی کو تقویت ملی‘ لیکن حالیہ بیان بازی اور اس سے قبل آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر جو تندوتیز حملے کئے‘ ان سے پی پی پی کی پی ڈی ایم میں واپسی کی امید دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں اب بھی متعدد معاملات پر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کا موقف یکساں ہے لیکن حالیہ دنوں میں باہمی الزام تراشی میں شدت سے دونوں کے پی ڈی ایم کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا امکان محدود ہوتا جا رہا ہے۔ قومی‘ خصوصاً اپوزیشن پالیٹکس پر نظر رکھنے والے ماہرین حیران ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تمام توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کی طرف کیوں موڑدیا ہے‘ حالانکہ موخرالذکر کی طرف سے گزشتہ چھ ماہ سے پی پی پی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے نون لیگ مخالف بیانات پر کسی قسم کا کوئی رد عمل دینے یا تبصرہ کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود نون لیگ‘ خصوصاً نواز شریف اور ان کے بیانیے کو ہدفِ تنقید بناکر بلاول بھٹو زرداری کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے قبل پاکستان کی گزشتہ 70 سال کی سیاسی تاریخ کا ایک مختصر سا جائزہ لینا مفید ہوگا۔ اپریل 1953 میں گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد یہ بات طے ہوگئی تھی کہ اوپر والوں کی خوشنودی کے بغیر کوئی سیاسی پارٹی نہ تو اقتدار حاصل کر سکتی ہے اور نہ ہی اقتدارمیں رہ سکتی ہے۔ خواجہ صاحب کے لیے ان کی اچانک برطرفی کا حکم حیران کن اور غیر متوقع ہو گا‘ لیکن گورنر جنرل نے یہ فیصلہ اچھی طرح سوچ سمجھ کرکیا تھا اور یہ فیصلہ کرنے میں وہ اکیلے نہیں تھے‘ بلکہ انہیں اپنے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا اور ایوب خان کی حمایت حاصل تھی۔ انہی دو اصحاب نے 1958 میں 1956 کے آئین کی منسوخی اور ملک میں پہلی فوجی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس کے بعد ایک طرح سے طے ہوگیا کہ کوئی شخصیت یا سیاسی جماعت بائی پاس کرکے نہ تو اقتدار تک پہنچ سکتی ہے اور نہ کسی ناراض کرکے اقتدارمیں رہ سکتی ہے۔ ہاں کچھ استثنائی کیسز ہیں‘ مثلاً 1970 کے انتخابات میں اگر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے کامیاب نہ ہوتی تو جنرل یحییٰ خان کی حکومت انہیں اقتدار منتقل کرنے پرکبھی آمادہ نہ ہوتی‘ اگرچہ اقتدار کی اس منتقلی میں حالات کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔
اسی طرح 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی انتخابی کامیابی نے ان کی پارٹی کو مرکز میں حکومت بنانے کا حق دار بنایا اور اسی بنیاد پر 1997 میں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ نہ صرف مرکز میں حکومت تشکیل دی بلکہ اپریل 1998 میں ضیا آمریت کی نشانی آرٹیکل 58-2B کو آئین سے حذف کرکے پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم کی‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سویلین بالادستی کی تلاش میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھنا پڑا‘ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں (1988 تا 1990 اور 1993 تا 1996) کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی برخاست کر دیا گیا اور نواز شریف کو ایک دفعہ جلاوطنی پر مجبورہونا پڑا اور دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ سے معزولی کے ساتھ عمر بھر کیلئے نااہلی کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ وقت اورکردار مختلف ہو سکتے ہیں لیکن خواجہ ناظم الدین‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک ہی صف میں کھڑے نظرآتے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے ان رہنمائوں کے انجام سے سبق سیکھتے ہوئے ایک بالکل مختلف راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وہ ہے 'بنا کر رکھنے‘ کا راستہ۔ اسی راستے پر چل کر انہوں نے 2008 سے 2013 تک اپنی حکومت کی آئینی مدت پوری کی اور اب سندھ میں اپنی حکومت کو بچا کررکھے ہوئے ہیں۔ 2018 میں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرا کر پی ٹی آئی کی ہمنوا بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کی تشکیل اور اس کی صوبائی حکومت کے قیام اور سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن کے بجائے حکمران جماعت کا ساتھ دینے کا فیصلہ سب میری نظرمیں 'بنا کر رکھنے‘ کے ہی اقدامات تھے۔ عین اس وقت جبکہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا‘ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے علیحدگی اختیار کرکے نہ صرف حکومت بلکہ ان قوتوں کو بھی ریلیف فراہم کیا جن کے ساتھ 'بنا کر رکھنے‘ کا انہوں کے قصد کیا ہوا ہے۔ آج کل بلاول بھٹو اپنے خطابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں۔ اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جتنا مسلم لیگ (ن) خصوصاً نوازشریف کی مذمت کرتے ہیں اتنا ہی وہ منزل مقصود کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اگر یہ سمجھتی ہے کہ نوازشریف کے بیانیے کی وجہ سے نون لیگ اور ناقص کارکردگی کی بنا پر پی ٹی آئی کو مسترد کرکے کوئی اپنا وزن پی پی پی کے پلڑے میں ڈالے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اس وقت سیاسی اور غیرسیاسی قوتیں ایک پیج پر ہیں اور آئندہ بھی ایک پیج پر ہی رہیں گی‘ البتہ شہباز شریف مشروط طور پراقتدار سنبھالنے پرتیار ہو جائیں تو اس میں تبدیلی آ سکتی ہے‘ مگر اس کا کوئی امکان نہیں‘ اور یوں پی ٹی آئی کی حکومت کو حمایت حاصل رہے گی۔ اس نمبر گیم میں پیپلز پارٹی کا پنجاب یا مرکز میں فی الحال برسرِ اقتدار آنے کا کوئی امکان نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے جلسوں اور تقریبات میں مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پر سیاسی حملے بعض کانوں کے لیے میوزک ضرور ہو سکتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) (مائنس نواز شریف) پی ٹی آئی کا متبادل بننے کا باعث نہیں ہو سکتے۔