"DRA" (space) message & send to 7575

کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات اور قومی سیاست

پاکستان میں بالغ رائے دہی اور خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہونے والے انتخابات میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سب سے نچلی سطح کے ہوتے ہیں۔ اس سے اوپر والی سطح پر بلدیاتی اداروں‘ صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی یا پارلیمانی انتخابات ہیں‘ اس لیے حال ہی میں ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میڈیا اور سیاسی حلقوں میں غیر معمولی توجہ اور بحث کا مرکز تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں یعنی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے دور میں ضمنی انتخابات کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے عوام میں اپنی مقبولیت اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔
اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی بلدیاتی اداروں کی فعالیت کی سب سے بڑی داعی تھی‘ لیکن تین سال گزر جانے کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے میں ناکامی سے پوری قوم سخت مایوسی کا شکار ہوئی ہے۔ ضمنی انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی ووٹنگ کا تناسب (Turn out) کم ہوتا ہے اس لیے کنٹونمنٹ بورڈز کے 12 ستمبر کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل لوگوں میں سے صرف ایک تہائی نے اپنا حقِ نیابت استعمال کیا ہے تو حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ اوپر والی سطح کے انتخابات کے مقابلے میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں بہت کم Stakes ہوتے ہیں کیونکہ منتخب ممبران کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترقیاتی اور دیگر اخراجات کے لیے مختص فنڈز کی مالیت بھی بہت محدود ہوتی ہے۔ اس لیے عام لوگوں کی توجہ ان انتخابات کی طرف کم ہی جاتی ہے‘ اس کے باوجود قومی‘ صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے بعد کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات واحد انتخابات ہیں جو جمہوریت کے سب سے اہم اور بنیادی اصول یعنی عام بالغ رائے دہی کی بنیاد پر خفیہ طریقے سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر دیگر بلدیاتی اداروں کے ہمراہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کو بھی جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔
انتخابات کسی سطح پر بھی منعقد کئے جائیں‘ یہ ایک ایسے معرکے کے مترادف ہیں جس میں عوام (ووٹرز) کو اپنی پسند ناپسند‘ ترجیحات اور حکومت کی کارکردگی پر اپنی آزادانہ رائے کے اظہار کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے‘ انہیں بھی (محدود پیمانے پر ہی سہی) انتخابی مہم کے ذریعے عوام کے احساسات اور رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ اس تجربے سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر سیاسی پارٹیاں دیگر انتخابات کے لیے اپنی حکمت عملی کو مرتب کرتی ہیں۔ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کا ایک نمایاں پہلو آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی ہے۔
پاکستان میں ہر سطح کے انتخابات میں آزاد امیدوار ہمیشہ ایک معقول تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں‘ لیکن بلدیاتی اداروں میں ان کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں آزاد امیدوار غیر معمولی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ قومی سطح پر پی ٹی آئی 63 اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 59 کامیاب امیدواروں کی تعداد کے بعد آزاد امیدوار (53) سب سے بڑی تعداد میں ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آزاد امیدواروں کی تعداد تو پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں سے بھی زیادہ ہے‘ اور صوبہ بلوچستان میں چار کی تعداد میں کامیاب ہو کر آزاد امیدواروں نے اول پوزیشن حاصل کر لی ہے۔
بلدیاتی اداروں میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی کی سب سے اہم وجہ ان انتخابات میں کارفرما عوامل کا دیگر انتخابات میں کارفرما عوامل سے مختلف ہونا ہے۔ جس طرح صوبائی سطح کے انتخابات میں‘ قومی اسمبلی کے انتخابات سے مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں‘ اسی طرح بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں‘ جن مسائل کی وجہ سے لوگ کسی امیدوار کے حق میں یا اسکے خلاف ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں‘ وہ مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں ووٹرز سیاسی وابستگیوں سے بھی بلند ہو کر ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے انگریزوں نے جب انیسویں صدی کے وسط میں متحدہ ہندوستان میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا تو اسے غیر سیاسی بنیادوں پر فعال کیا گیا تھا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ہی ہندوستان میں تحریکِ آزادی کی قیادت کرنے والی سیاسی جماعتوں‘ خصوصاً کانگریس نے انگریزوں کے اس فیصلے کو تحریکِ آزادی کے نتیجے میں ابھرنے والی عوامی قیادت کے متوازی ہندوستانی سفید پوشوں پر مشتمل ایک وفادار طبقے کو پیدا کرنے کی ایک کوشش کے مترادف قرار دیا۔ یہ تاثر حصولِ آزادی کے 73 سال بعد‘ خصوصاً پاکستان میں ابھی تک قائم ہے۔ بلدیاتی اداروں کی فعالیت یا ان کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اسی لیے شک کی نگاہ سے اور صوبائی و قومی سطح پر اپنی سیاست کے خلاف ایک سازش سمجھتی چلی آ رہی ہیں۔ ایوب خان کے بنیادی جمہوری نظام اور پرویز مشرف کے نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کو بیشتر سیاسی جماعتوں نے اسی وجہ سے مسترد کر دیا تھا‘ لیکن جب سے بلدیاتی انتخابات کو غیر سیاسی کے بجائے سیاسی بنیادوں پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ سیاسی پارٹیوں کی دلچسپی اور اس میں شمولیت میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے اب دیگر سطح کے انتخابات کی طرح بلدیاتی‘ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے نتائج کو بھی حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت اور طاقت کے موازنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس اصول کی روشنی میں اگر حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کرپشن اور احتساب کے نام پر حکومت نے ریاست کے تمام تر وسائل کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو عوام کی نظروں میں گرانے کیلئے مختلف الزامات پر مبنی جو مہم گزشتہ تین برسوں سے چلا رکھی ہے‘ اس کا اس جماعت کی صحت پر زیادہ اثرنہیں پڑا۔ قومی سطح پر کامیاب ہونے والے پی ٹی آئی اور نون لیگ کے امیدواروں کی تعداد میں تین‘ چار کاہی فرق ہے جبکہ پنجاب میں اول الذکر کے کامیاب امیدواروں کی تعداد موخرالذکر کے کامیاب امیدواروں کی تعداد سے تقریباً آدھی ہے۔
انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ لاہور اب بھی نون لیگ کا گڑھ ہے اور وزیر اعظم کا ہر ہفتے لاہور آ کر عثمان بزدار کی حکومت کو تھپکی دینا بھی کسی کام نہیں آیا۔ لاہور کے علاوہ راولپنڈی اور پشاور میں بھی نون لیگ کے امیدواروں کی نمایاں جیت اب ان لوگوں کو سوچنے پر مجبورکر دے گی جن کا دعویٰ تھا کہ اپوزیشن ''ٹُھس‘‘ ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور اے این پی کی حمایت کے بغیر پی ڈی ایم کا جھندا بلند کئے ہوئے ہے لیکن حکومت کے ارکان بدستور بیانات دے رہے ہیں کہ پی ڈی ایم ختم ہو گئی ہے۔ سندھ کے نتائج پی پی پی کے لیے لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں کی تعداد (14) اس کے برابر ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے تمام کامیاب امیدواروں کا تعلق کراچی سے ہے اور اندرون سندھ سے اس کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا؛ تاہم کراچی کے علاوہ اندرون سندھ میں بھی پی پی پی کا گرتا ہوا گراف آنے والے دنوں میں صوبے کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا اشارہ ملنے کے بعد صوبے میں سیاسی پارٹیاں جو حکمت عملی تیار کریں گی اور ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جو بھی طریقے اختیار کریں گی‘ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے دوران حاصل کردہ تجربہ ان کے ضرور کام آئے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں