گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ‘ جس کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے‘ نے ایک تاریخی فیصلے میں ایک جیسی کئی پٹیشنز کو مسترد کر دیا‘ جن میں ملک میں رائج پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت کو نافذ کرنے کیلئے وزیر اعظم اور صدر کو ریفرنڈم منعقد کرنے کی ہدایت کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ صادر کرتے وقت کہا ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور آئین کے مطابق سپریم کورٹ کو سیاسی مسائل کے حل کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
دوران سماعت بینچ کے اراکین فاضل جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان میں جب بھی اور جیسے بھی صدارتی نظام نافذ کیا گیا‘ ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ پٹیشنر احمد رضا خان قصوری سے استفسار کیا گیا کہ 1973ء کے آئین کی تشکیل کے موقع پر آپ رکن قومی اسمبلی تھے، اس وقت آپ نے پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟
سپریم کورٹ اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر پارلیمانی حکومت کو وفاقیت (Federalism) اور آزاد عدلیہ کے ہمراہ پاکستان کا ایک بنیادی ستون قرار دے چکی ہے۔ اس کے علاوہ مارچ 1949ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادِ مقاصد (Objectives Resolution)‘ جو آئین کا حصہ ہے‘ میں پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کا نظامِ حکومت قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بالکل درست کہا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کو قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور اس کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت نافذ کرنے سے قومی اتفاق رائے کی خلاف ورزی ہو گی جس سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔
اس کی واضح مثال 1962ء کا صدارتی آئین ہے جسے پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے یکطرفہ طور پر نافذ کیا تھا۔ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر کے مطابق 1962ء کے آئین نے پاکستان کو عملی طور پر وفاقی سے ایک وحدانی ریاست میں تبدیل کر دیا تھا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اس آئین کے تحت ارتکازِ اختیارات کے ڈھانچے نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کی ہر فوجی حکومت کے دور میں ملک کو ایک وحدانی ریاست کے طور پر چلایا جاتا رہا‘ اور اس کے نقصانات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
1968ء میں ایوب خان کی حکومت کے خلاف متحدہ پاکستان کے طور و عرض میں جو عوامی تحریک چلائی گئی تھی، اس کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں پہلا مطالبہ پاکستان میں پارلیمانی جمہویت کی بحالی کا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو دل سے پاکستان میں صدارتی نظام کے حامی تھے لیکن 1972ء میں نئے آئین کی تشکیل کے دوران تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کا پارلیمانی جمہوریت کی طرف جھکاؤ دیکھ کر اپنے مؤقف سے دست بردار ہو گئے تھے۔ 1973ء کے آئین میں آٹھویں اور اس کے بعد سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے بالترتیب جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے ملک کے پارلیمانی نظام کو عملی طور پر صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی لائی تبدیلیاں دیرپا ثابت نہیں ہوئیں‘ اور 1997ء میں نواز شریف اور 2010ء میں زرداری، گیلانی کے ادوار حکومت میں 1973ء کے آئین کا پارلیمانی کریکٹر بحال کر دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی اور صدارتی‘ دونوں نظام ہائے حکومت جمہوری ہیں اور اول الذکر کی طرح موخرالذکر بھی کئی ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے، مگر جنوبی ایشیاء کے مخصوص تاریخی سیاق و سباق میں صدارتی نظام حکومت کو آمرانہ رجحانات کا مظہر اور سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ راجیو گاندھی سے بھارت میں صدارتی نظامِ حکومت نافذ کرنے کی تجویز پر ان کی رائے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر بھارت میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت نافذ کیا گیا تو ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
بنگلہ دیش میں 15 برس سے زیادہ عرصہ تک صدارتی نظام کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں کی متفقہ رائے سے پارلیمانی حکومت بحال کی گئی‘ تو اس کی آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ نیپال میں مطلق العنان بادشاہت کے خلاف طویل عوامی جدوجہد کے بعد پارلیمانی آئین نافذ کیا گیا، تو اس کے بھی کچھ محرکات ہوں گے۔ سری لنکا میں صدارتی نظام حکومت 1978ء سے نافذ ہے، مگر اس میں اصلاحات کے ذریعے صدر کے مقابلے میں پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مالدیپ میں آئے دن کے سیاسی بحرانوں کی وجہ صدارتی نظام بتایا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیاء میں صدارتی نظام پر پارلیمانی نظام کو ترجیح دینے اور خود پاکستان میں اس نظام کے تباہ کن نتائج کے باوجود، آخر ملک میں صدارتی نظام کے حق میں آوازیں کیوں بلند ہوتی ہیں‘ یا اسے چور دروازے سے نافذ کرنے کی کیوں کوشش ہوتی ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں جب جمہوری‘ سیاسی قوتیں کمزور ہوتی ہیں اور غیر سیاسی قوتیں بالا دست ہوتی ہیں تو پارلیمانی نظام کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے اس کے خلاف ایک منظم مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پاکستان میں غیرسیاسی حکمرانوں سے قربت رکھنے والے اور آمرانہ ادوار میں مختلف فوائد اٹھانے والے حضرات اس مہم میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے پارلیمانی نظام کی بساط الٹنے کیلئے پٹیشن اس وقت دائر کی گئی جب نہ صرف حکومت سے باہر بلکہ اندر سے بھی پارلیمانی نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت پارلیمنٹ کے بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی حکومتی پالیسی ہو سکتی ہے‘ جسے پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے احتجاج کے باوجود حکومت بدستور اپنائے ہوئے ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان عناصر کی یقینا حوصلہ شکنی ہو گی جو پاکستانی ریاست اور عوام کے حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں‘ مگر صرف ایک فیصلے سے پاکستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہوں گی۔ اعلیٰ عدلیہ تو اپنی رائے کا اظہار لیگل فریم ورک کے ذریعے کر سکتی ہے اور یہ فریضہ تو اس نے نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دے دیا‘ لیکن پارلیمانی جمہوریت کے دفاع کی اصل ذمہ داری سیاسی پارٹیوں اور ان کے منتخب نمائندوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا فرض ہے کہ پارلیمانی جمہوری اداروں کو مضبوط اور فعال بنا کر عوام کو یقین دلائیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں نہ صرف ملک میں سیاسی استحکام کو پیدا کرنے کی بلکہ عوام کے مسائل حل کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تجویز پیش کی تھی کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو ایک مشترکہ اجلاس کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت پر قومی اتفاق رائے کی ایک دفعہ پھر تجدید کرنی چاہیے۔ اگر ملک کی سیاسی پارٹیاں اس اقدام پر رضا مند ہو جائیں تو سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے کو اور بھی تقویت حاصل ہو گی۔