کابل پر افغان طالبان کے قبضے کو9 ہفتے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مگر دنیا میں دو سو کے قریب ممالک میں سے کسی ایک نے بھی ابھی تک ان کی حکومت کو ملک کی جائز حکومت تسلیم نہیں کیا‘ حالانکہ پورا ملک حتیٰ کہ پنج شیر وادی اور شمال مغربی افغانستان کے علاقے‘ جن پر طالبان اپنے پہلے دور حکومت میں قبضہ نہیں کر سکے تھے، بھی اب ان کے زیر کنٹرول ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان الاقوامی برادری سے اپیل کر چکے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کروانے کیلئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے دورے کیے لیکن بالآخر اس نتیجے پر پہنچ کر خاموش ہو گئے کہ بین الاقوامی برادری اس کے لیے تیار نہیں۔
خود پاکستان‘ جس نے طالبان پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں‘ نے اسے تسلیم نہیں کیا‘ حالانکہ طالبان کی پہلی حکومت کو جن تین ملکوں نے تسلیم کر رکھا تھا اور باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے تھے، ان میں پاکستان ایک تھا، مگر موجودہ صورتحال میں پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ دیگر خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ہمراہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ افغان جنگ کے دوران خصوصاً اس کے آخری مرحلے میں روس، چین اور ایران کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی روابط قائم تھے۔ ان تینوں ممالک اور پاکستان کا ایک متفقہ مؤقف سامنے آ چکا تھا کہ طالبان افغانستان میں ایک ایسی عسکری اور سیاسی حقیقت ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ توقع تھی کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے یہ پہلے تین ممالک ہوں گے مگر ان ممالک کی طرف سے افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کے حق میں بیانات تو جاری کیے جاتے ہیں اور چین و پاکستان نے امریکہ، روس اور یورپی یونین کی طرح عملی قدم بھی اٹھایا ہے لیکن حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے سے احتراز کر رہے ہیں۔
طالبان حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے بھی افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے دورے کیے لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ایران، قطر، ترکی اور وسطی ایشیا کی ریاستیں طالبان کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ریلیف کا سامان فراہم کرنے کو تیار ہیں مگر حکومت تسلیم کرنے سے احتراز کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں‘حالانکہ طالبان پورے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد ایک مؤثر حکومت قائم کر چکے ہیں اور اس طرح بین الاقوامی قانون کے تحت Recognition کیلئے جو شرائط درکار ہیں، ان میں سے ایک اہم شرط پوری کر چکے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ اس ایک شرط پر پورا اترنا کافی نہیں۔ دنیا کے تمام ممالک، دوسرے ممالک کی حکومتوں کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے جن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں وہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج ہیں۔ رکنیت کے خواہش مند ملک کا امن پسند اور اقوام متحدہ کے مقاصد سے متفق ہونا ضروری ہے۔ ان میں بنیادی انسانی حقوق کا احترام بھی شامل ہے۔
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے تحفظات کی ایک منفرد وجہ یہ بھی ہے کہ فروری 2020ء کے معاہدے کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کے امکانات بڑھنا شروع ہو گئے تھے اور دنیا کو یہ یقین ہونے لگا تھا کہ جلد یا بدیر صدر اشرف غنی کی حکومت کی جگہ طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی، تو عالمی برادری کے ممتاز رکن اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل تھا، نے طالبان پر زور ڈالنا شروع کر دیا تھا کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنا کر افغانستان میں امن قائم کیا جائے اور ایک ایسی حکومت تشکیل دی جائے، جو صرف طالبان پر مشتمل نہ ہو بلکہ اس میں افغانستان کے دیگر لسانی گروہوں اور سیاسی قوتوں کو بھی نمائندگی حاصل ہو بلکہ بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے یہ اشارہ بھی دیا گیا تھا کہ اگر طالبان نے اپنے اعلان کے مطابق امریکیوں کے مکمل انخلا کے بعد بزور طاقت یکطرفہ طور پر 'امارت اسلامیہ‘ قائم کی تو ان کیلئے طالبان کو نہ صرف مدد فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا بلکہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی‘ لیکن طالبان نے ان تنبیہات کو نظر انداز کر دیا۔
انہوں نے خالصتاً طالبان پر مشتمل امارت اسلامیہ قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس میں تمام اعلیٰ عہدے ان طالبان رہنماؤں کو دئیے جو اپنی رجعت پسندی اور عورتوں کو حقوق دینے کے مخالف ہونے کی وجہ سے مشہور تھے۔ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے پرانی حکومت کے اراکین، امریکیوں کے ساتھ کام کرنے والے افغان باشندوں اور افغان نیشنل آرمی اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسروں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا بلکہ سابق انتظامیہ کے جو ارکان خوف سے اپنے دفتروں میں حاضر نہیں ہو رہے تھے یا روپوش تھے، انہیں واپس اپنی ڈیوٹیوں پر آنے کی اپیل کی گئی۔ سابق انتظامیہ اور امریکی شہری ہوا بازی اور فضائیہ کے بہت سے طیارے اور ہیلی کاپٹر چھوڑ گئے تھے، مگر انہیں چلانے والے ماہر ہوا باز افغانستان سے بھاگ کر وسطی ایشیا کے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے تھے۔ کابل پر قبضہ کرنے سے قبل طالبان نے دنیا کو یقین دلایا تھاکہ وہ عورتوں کے حقوق خصوصاً تعلیم اور ملازمت کے بارے میں فراخدلانہ پالیسی اختیار کریں گے‘ لیکن جب سے انہوں نے کابل پر قبضہ کیا ہے، خواتین کیلئے نہ صرف ملازمت بلکہ تعلیم کے دروازے بھی بند ہیں۔
عام معافی کے باوجود، طالبان کمانڈروں نے جس طرح سابق انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کو تشدد کا نشانہ بنایا‘ اس کی وجہ سے افغان شہریوں میں خوف کا یہ عالم ہے کہ جب حکومت کی طرف سے کابل میں پاسپورٹ کے اجرا کا اعلان کیا گیا تو ہزاروں افراد مکھیوں کی طرح پاسپورٹ آفس پر امڈ آئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو پڑھے لکھے ہنرمند اور حکومتی معاملات چلانے کے ماہر افراد افغانستان چھوڑ کر دوسرے میں پناہ لے چکے ہیں، وہ طالبان کی اپیل اور یقین دہانیوں کے باوجود واپس آنے کو تیار نہیں اور جو ابھی تک ملک میں موجود ہیں، وہ باہر جانے کو بیتاب ہیں۔ طالبان کی سخت گیر پالیسیوں اور کمانڈروں کی من مانی کارروائیوں کی وجہ سے حکومتی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی ہے‘ کیونکہ اسے چلانے والے خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد گزشتہ 20 برسوں میں مختلف شعبوں میں کام کر رہی تھی۔ وہ بالکل بیکار ہو کر گھر بیٹھی ہے۔ پھر ہزاروں بچیاں‘ جو مختلف سطحوں پر تعلیم حاصل کر رہی تھیں، اپنے مستقبل کے بارے میں سخت مایوس اور ناامید ہیں۔
جہاں تک بین الاقوامی برادری کا تعلق ہے انہوں نے افغانستان کی طرف سے اپنا منہ نہیں موڑا بلکہ تمام ممالک افغانستان کے عوام اور طالبان حکومت کی بھی مدد کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد خوراک، دوائیوں اور کورونا ویکسین کی صورت میں باہر سے امداد افغانستان پہنچ رہی ہے، لیکن جہاں تک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا تعلق ہے، بین الاقوامی برادری اس رائے کی حامل نظر آتی ہے کہ جب تک طالبان بنیادی انسانی خصوصاً عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظ اور سب سے اہم دیگر دہشتگرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دہانیوں پر عمل نہیں کرتے، ان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔