"DRA" (space) message & send to 7575

افغان طالبان اور بین الاقوامی برادری …(آخری قسط)

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں کے عوام کو جو مشکلات پیش آ رہی ہیں‘ ان پر قابو پانے کیلئے ایک طرف طالبان عبوری حکومت کے اعلیٰ اور اہم اراکین اپنے ہمسایہ اور دوست ملکوں سے مدد حاصل کرنے کیلئے دورے کررہے ہیں اور دوسری طرف عالمی سطح پر بھی سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آ رہی ہے۔ طالبان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے اس سلسلے میں ازبکستان کا دورہ کیا ‘ جہاں حکومت کے اعلیٰ حکام سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے حصول اور دو طرفہ تجارت کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔
اس سے قبل قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کا ایک وفد ترکی کا بھی دورہ کر چکا ہے۔ ترکی میں بھی طالبان وفد نے دو طرفہ تجارت اور افغانستان میں ترکی کی سرمایہ کاری کے فروغ کے امکانات پر بات چیت کی۔ طالبان حکومت نے قطر کے ساتھ بھی باضابطہ طور پر انہی مقاصد کے حصول کیلئے رابطہ کیا ہے۔ طالبان وفود کے ساتھ ان تینوں ملکوں نے افغانستان کے عوام کی امداد کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے پر آمادگی کا اظہار کیا‘ لیکن فی الحال طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔ اس کیلئے انہوں نے طالبان کو ان خدشات سے آگاہ کیا، جن کا بین الاقوامی برادری کے دیگر رکن ممالک برملا اظہار کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ طالبان نے ملک میں اب تک جو اقدامات کئے ہیں، ان پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، ان میں خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیاں اور عام معافی کے باوجود سابقہ حکومت کے حکام اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کو ہراساں اور قتل کرنے کے واقعات نمایاں ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘ جو طالبان حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں‘ اس بات کے بھی خواہشمند ہیں کہ طالبان اپنی سخت گیر اندرونی پالیسیوں میں نرمی لائیں اور اپنے اردگرد دوسرے مسلم ملکوں میں عورتوں اور اقلیتوں کو جو حقوق حاصل ہیں اور جن رعایتوں سے وہ استفادہ کر رہے ہیں، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ بیس سال قبل کے سخت گیر قوانین کو نافذ کرنے کے بجائے، افغان معاشرے میں اس دوران جو تبدیلیاں آ چکی ہیں اور بین الاقوامی برادری ان سے جو توقع رکھتی ہے،اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ طالبان میں اپنے سخت گیر مؤقف میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ یونیسکو کے ایک اعلیٰ عہدیدار‘ جنہوں نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا ہے‘ کے مطابق طالبان افغان خواتین کو پانچویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہو گئے ہیں اور اس سلسلے میں جلد ہی ایک اعلان متوقع ہے، لیکن جہاں تک خواتین کو ملازمت کی اجازت یا سابقہ حکومت کے دور میں ملازمت پیشہ خواتین کو ان کی ملازمت پر بحال کرنے کا تعلق ہے، طالبان کی طرف سے لچک کے ابھی کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے‘ لیکن ایک بات واضح ہے، جوں جوں طالبان اور بین الاقوامی برادری میں روابط بڑھیں گے، اول الذکر کے رویے میں اعتدال اور لچک پیدا ہوتی جائے گی کیونکہ دباؤ اور پابندیوں سے یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ ان سے طالبان کا نقصان کم اور افغان عوام کی تکلیفوں میں اضافہ زیادہ ہو گا۔
افغان عوام کیلئے امداد کی ترسیل میں دیر بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت کے خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔ ملازمین گزشتہ کئی ماہ سے بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں اور عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ غربت کے ہاتھوں اپنے بچے بھی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر بین الاقوامی سطح پر بھی افغانستان کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے صلاح مشورے کا آغاز ہو چکا ہے۔ طالبان حکومت کے بارے میں ایک متفقہ مؤقف اختیار کرنے کیلئے روس ایک دفعہ پھر لیڈ کردار ادا کر رہا ہے اور ماسکو میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا 19 اکتوبر کوانعقاد کیا گیا۔اس سے قبل مارچ میں روس کی دعوت پر چین اور امریکہ کے علاوہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ طالبان کا بھی ایک وفد اس کانفرنس میں شریک ہوا تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیہ میں شرکا نے طاقت کے استعمال کے بجائے پُرامن مذاکرات کے ذریعے افغانستان کا مسئلہ حل کرنے پر زور دیا تھا۔
15 اگست کے بعد افغانستان ایک بالکل نئی صورت حال سے دوچار ہو چکا ہے۔ ملک انارکی کا شکار ہے اور اگر افراتفری کا یہی عالم رہتا ہے اور طالبان حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے نہ صرف افغانستان کے عوام کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہو گا بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ روس اس ضمن میں اگر خصوصی طور پر مضطرب ہے تو اس کی کئی وجوہات ہیں‘ ان میں وسطی ایشیائی ریاستوں‘ جنہیں ابھی تک روس کا بیک یارڈ سمجھا جاتا ہے‘ کی سلامتی کو خطرات اور منشیات کی سمگلنگ دوبارہ شروع ہونے کے خدشات نمایاں ہیں۔ اس لئے روس ان ممالک میں شامل ہے جو افغانستان میں جلد از جلد امن و امان کے قیام کے خواہش مند ہیں، تاکہ انارکی کے جاری رہنے اور طالبان حکومت کی ناکامی سے پیدا ہونے والے منفی اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔
روس کی طرف سے ماسکو میں انٹرنیشنل کانفرنس بلائے جانے کے علاوہ‘ بھارت نے بھی افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی دہلی میں ایک کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ یہ کانفرنس نومبر میں منعقد ہونے کی توقع ہے اور اس میں پاکستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان نے بھارتی دعوت موصول ہونے کی تصدیق تو کر دی ہے تاہم اس پر ابھی کسی فیصلے کا اعلان نہیں کیا، لیکن اطلاعات کے مطابق اس میں پاکستان کی شرکت کے تمام مضمرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی برادری طالبان کو نظر انداز کرنے کے بجائے انگیج کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے افغانستان کی صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے‘ جس سے افغانستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنا ہے جس میں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بیان میں کہا ہے، اگر تاخیر کی گئی تو افغانستان ایک بہت بڑے انسانی المیے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ اور دنیا کے دیگر ممالک اس مسئلے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے، افغانستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور بعض ممالک مثلاً یورپی یونین اور امریکہ بالواسطہ طور پر افغان عوام کی امداد کر بھی رہے ہیں‘ لیکن طالبان نے وعدوں کے برعکس ''امارت اسلامیہ‘‘ بحال کرکے، بین الاقوامی برادری کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس وقت وہ ممالک‘ جو طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں، بھی طالبان کو ملک میں اعتدال پسندی اور افغان عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے احترام پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ طالبان کے سخت گیر اقدامات سے ان ملکوں میں رائے عامہ انہیں کسی قسم کی مدد فراہم کرنے خلاف ہے۔ امید ہے کہ طالبان کی طرف سے اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرنے کے بعد بین الاقوامی برادری انہیں تسلیم کرنے پر بھی آمادہ ہو جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں