افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا اور طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اس سے پیدا ہونے والے مختلف مسائل پر ایک متفقہ مؤقف اختیار کرنے کیلئے بین الاقوامی برادری خصوصاً افغانستان کے ہمسایہ ممالک مختلف سطح پر صلاح مشوروں میں مصروف ہیں‘ لیکن اکتوبر میں ہونے والی دو کانفرنسیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے ایک روس کی میزبانی میں ماسکو اور دوسری ایران کی دعوت پر تہران میں منعقد ہوئی۔ دونوں کانفرنسیں پہلے سے موجود مشاورتی ڈھانچوں کے تحت منعقد کی گئی ہیں۔ ماسکو میں جس میکنزم کے تحت بین الاقوامی مشاورت کا اجلاس بلایا گیا، اسے ''ماسکو فارمیٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جسے 2017ء میں روس کے انیشی ایٹو پر قائم کیا گیا تھا۔ اس میں روس، پاکستان، ایران، بھارت اور چین کے علاوہ وسطی ایشیا کی پانچ ریاستیں شامل ہیں۔ اپنے قیام کے بعد ''ماسکو فارمیٹ‘‘ کا یہ تیسرا اجلاس تھا۔ اس اجلاس کی خاص اہمیت یہ تھی کہ اس میں باقاعدہ رکن ممالک کے علاوہ طالبان اور امریکہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر امریکہ نے شرکت سے معذرت کر لی۔ تہران میں ہونے والی کانفرنس افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، ایران اور پاکستان کے علاوہ روس اور چین کے وزرائے خارجہ کے فورم کے تحت منعقد کی گئی تھی۔ اس سے قبل اس فورم کا ویڈیو لنک کے ذریعے ایک اجلاس ستمبر میں اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔
20 اکتوبر کو ''ماسکو فارمیٹ‘‘ اور 27 اکتوبر کو تہران میں منعقدہ وزرائے خارجہ کے فورم میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ چینی اور روسی وزرائے خارجہ نے بالترتیب بیجنگ اور ماسکو سے ویڈیو لنک کے ذریعے تہران کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان دونوں کانفرنسوں میں شریک ممالک کے نمائندوں کی تقاریر اور اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری‘ بشمول ہمسایہ ممالک‘ کی طرف سے افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کا ابھی کوئی امکان نہیں کیونکہ دونوں کانفرنسوں کے مشترکہ اعلامیوں میں طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم کریں جس میں افغانستان کے تمام لسانی اور سیاسی گروپوں کو نمائندگی حاصل ہو۔ عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی جائے۔ اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو اعتدال کے اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی بنیاد پر استوار کریں‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے افغان سرزمین استعمال کرنے کے بارے میں ہمسایہ ممالک میں جو تشویش پائی جاتی ہے، اسے دور کیا جائے۔ طالبان نے اس سلسلے میں اگرچہ ہمسایہ ممالک کو متعدد بار یقین دہانیاں کرائی ہیں مگر عملی طور پر اس جانب کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پاکستان تو حالیہ دنوں میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے سرحد پار حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے سرحد پار افغانستان میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور وہاں سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں اور شمالی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا جاتا ہے۔ اسی قسم کے خدشات افغانستان کے وسطی ایشیا کے ہمسایہ ممالک یعنی تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں پائے جاتے ہیں۔
دونو ں کانفرنسوں کے مشترکہ اعلامیوں میں افغانستان کی طالبان حکومت کو سخت پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنے ملک میں امن و امان کے قیام، قانون کی حکمرانی اور گڈ گورننس پر توجہ دیں، کیونکہ انارکی کی موجودہ صورتحال میں بین الاقوامی برادری کیلئے افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد مہیا کرنا مشکل ہوگا۔ دوسری طرف دونوں کانفرنسوں کے شرکا نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی معاشی اور سماجی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر افغان عوام کو فوری طور پر امداد فراہم کرنے پر زور دیا ہے اور اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان کو امداد فراہم کرنے والے ممالک کی ڈونرز کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔
ماسکو میں منعقدہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان سے امریکہ کے ''عجلت میں اور غیرذمہ دارانہ طریقے سے‘‘ انخلا پر سخت تنقید کی گئی اور افغانستان کے موجودہ بحران کا امریکہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس پر افغانستان کے عوام کیلئے امداد میں دوسروں سے بڑھ کر ہاتھ بٹانے پر زور دیا گیا۔ غالباً تنقید سے بچنے کیلئے ہی امریکہ نے ''ماسکو فارمیٹ‘‘ کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ اس اجلاس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پاکستان، ایران اور طالبان وفد کے ساتھ بھارت نے بھی شرکت کی۔ اسی طرح طالبان اور بھارت کے مابین پہلی دفعہ باضابطہ طور پر رابطہ قائم ہوا۔
اگرچہ طالبان نے تہران کانفرنس میں شرکت نہیں کی مگر وہ ان دونوں کانفرنسوں کے انعقاد پر خوش ہیں اور ان کے نتائج کو مثبت قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کی ہے جنہوں نے بیجنگ سے ویڈیو لنک کے ذریعے تہران کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی مزید کانفرنسیں منعقد ہونا چاہئیں تاکہ افغان مسئلے کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے علاقائی سطح پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ پر مشتمل فورم کا اگلا اجلاس بیجنگ میں بلانے کی تجویز پیش کی جو تہران کانفرنس کے شرکا نے قبول کر لی۔ روس کے وزیر خارجہ نے جہاں ایک طرف طالبان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حکومت کو افغانستان کی ایک جائز اور قانونی حکومت کی حیثیت سے تسلیم کرے تو انہیں اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی‘ اور عالمی برادری کو ان کے بارے میں جو تحفظات ہیں، انہیں دور کرنا ہو گا اور دوسری طرف دنیا کو بتایا کہ طالبان ایک ''معروضی حقیقت‘‘ ہیں اور انہیں جتنا جلدی ممکن ہو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ افغانستان ایک دفعہ پھر بین الاقوامی برادری کا ''پُرامن اور ذمہ دار‘‘ رکن بن کر عالمی اور علاقائی سیاست میں مفید اور مثبت کردار ادا کرسکے۔
ماسکو اور تہران میں منعقدہ ان کانفرنسوں کا مقصد بحرانی کیفیت میں افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے اور صورتحال کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے علاقائی سطح پر اتفاق رائے پر مبنی ایک مشترکہ مؤقف اختیار کرنا تھا۔ کانفرنسوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں مقاصد کے حصول میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے۔ کانفرنسوں میں شریک تمام ملکوں نے افغانستان کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بعض ممالک مثلاً پاکستان، چین، روس اور ایران پہلے ہی افغان عوام کیلئے امداد فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی صف میں اب بھارت بھی شامل ہو گیا ہے۔ جہاں تک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا سوال ہے، طالبان پر واضح کر دیا گیا ہے کہ جب تک وہ عالمی برادری سے دوحہ معاہدے کے تحت کئے گئے وعدے پورے نہیں کرتے اور دہشتگردی کے بارے میں ہمسایہ ممالک کے خدشات کو دور نہیں کرتے، انہیں اس بات کی امید نہیں رکھنی چاہیے کہ بین الاقوامی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کرے گی۔ جہاں تک بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس کا تعلق ہے، اس کی کامیابی کا انحصار امریکہ کی شرکت اور دوحہ مذاکرات کے دوران کئے گئے وعدوں کے مطابق افغانستان کو اقتصادی اور انسانی امداد فراہم کرنے پر ہے۔ تہران کانفرنس کے شرکا نے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے پر بھی زور دیا‘ لیکن ان سب مقاصد کے حصول کا تعلق افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے ہے‘ جس میں‘ جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے، ابھی وقت لگے گا۔