بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سرکاری سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو (Hector Bolitho) نے اپنی کتاب Jinnah Creator of Pakistan میں لکھا ہے کہ گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد قائد اعظم نے کراچی کے مضافات میں واقع کسی مقام کا وزٹ کیا۔ انہیں اپنے درمیان پاکر مقامی لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ جلد ہی اردگرد کے لوگ بھی شامل ہو گئے اور لوگوں کی تعداد ایک اچھے خاصے جلسے کے برابر ہو گئی اور جیسا کہ جلسوں کا دستور ہوتا ہے‘ حاضرین نے قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ اچانک حاضرین میں سے کسی نے ''حضرت مولانا قائد اعظم‘‘ زندہ باد کا نعرہ لگا دیا۔ قائد اعظم کے کان میں جب اس نعرے کی آواز پڑی تو وہ فوری طور پر حاضرین سے مخاطب ہوئے اور کہا ''یہ بند کرو، میں تمہارا سیاسی لیڈر ہوں، مذہبی رہنما نہیں ہوں‘‘۔
قائد اعظم کے اس رد عمل کو اگر 11 اگست 1947ء کو ان کی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے اس حصے کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جائے جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ ''پاکستان کی حدود میں رہنے والے تمام باشندے بلا تفریق مذہب برابر کے شہری ہیں۔ فرد کے مذہب کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے‘‘ تو صاف معلوم ہو گا کہ بابائے قوم نئے ملک کی سیاسی قیادت کے مذہبی کردار ادا کرنے کے سخت مخالف تھے‘ لیکن جیسا کہ ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں، ان کی وفات کے بعد پاکستان میں عنانِ اقتدار سنبھالنے والی سیاسی قیادت نے قائد اعظم کے اسی بنیادی اصول سے روگردانی کی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اسے پاکستان خصوصاً وسطی پنجاب میں جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف کے شہری اور دیہاتی باشندوں نے حال ہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو گا۔
پشاور سے شروع ہو کر راولپنڈی سے گزرتی ہوئی اور وسطی پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کو ملاتی ہوئی جی ٹی روڈ بلاشبہ ملک کی مصروف ترین گزرگاہ ہے۔ اس پر روزانہ لاکھوں لوگ پرائیوٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کاروبار، تعلیم، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کیلئے سفر کرتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی اجناس، پھل اور سبزیاں بھی اسی شاہراہ کے راستے بڑی منڈیوں اور پھر وہاں سے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات تک سپلائی کی جاتی ہیں۔ کراچی کے بعد پاکستان میں اگر صنعتکاری ہوئی ہے تو یہ لاہور سے راولپنڈی کے درمیان جی ٹی روڈ کی دونوں اطراف کا علاقہ ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں شیخوپورہ، گوجرانوالہ، وزیر آباد، سیالکوٹ اور گجرات چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے مراکز ہیں‘ جن کی مصنوعات کی برآمد کے ذریعے ملک ہر سال کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کماتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کیا جاتا ہے۔
ان صنعتوں کو زندہ رکھنے کیلئے جس خام مال، منڈیوں تک رسائی اور سب سے بڑھ کر جس ایندھن (fuel) کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی اسی شاہراہ کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ اگر یہ شاہراہ ان تمام سرگرمیوں کیلئے تین ہفتے تک بلاک رہے تو سفر کرنے والے لاکھوں لوگوں کو پہنچنے والی تکالیف اور اذیتوں کے علاوہ قومی معیشت کا کتنا نقصان ہوا ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں سے وسطی پنجاب کی منڈیوں کو بھیجے جانے والے پھل اور سبزیاں جی ٹی روڈ کے بلاک ہونے سے ٹرکوں میں گل سڑ کر خراب ہو گئے۔ لاہور سے جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد تک مارچ کرنے والے ایک جماعت کے جلوس کے شرکا نے راستے میں سرکار ی و نجی املاک، کروڑوں روپے کی مالیت سے تعمیر ہوئے والے انفراسٹرکچر کو تباہ کرکے جو نقصان پہنچایا، وہ اس کے علاوہ ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات حسن خاور کے ایک بیان کے مطابق 2017ء سے اب تک اس جماعت کے چھ بار احتجاجی جلوسوں اور دھرنوں سے ملک کو 35 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس بھاری معاشی نقصان اور ریاست کی رٹ کی متواتر کمزوری سے بچا جا سکتا تھا‘ اگر نوآزاد ملک میں سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھا جاتا۔ لیکن پاکستان کی سیاسی برادری نے بدترین موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائد اعظم کی نصیحت کو نظرانداز کیا۔ میرے خیال میں اس کی ابتدا 1949ء میں قرارداد مقاصد سے ہوئی جس کے تحت پاکستانی قوم کو دو حصوں‘ اکثریت اور اقلیت‘ میں تقسیم کر دیا گیا حالانکہ قائد اعظم نے بلا لحاظ رنگ و نسل، ذات اور مذہب، تمام پاکستانیوں کو برابر کے شہری حقوق کا مالک قرار دیا تھا۔
پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب ''جناح سے ضیا تک‘‘ (From Jinnah to Zia) میں لکھا ہے کہ اگر یہ قرارداد قائد اعظم کی زندگی میں مجلس دستور ساز میں پیش کی جاتی تو بابائے قوم اسے کبھی منظور نہ ہونے دیتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بانیٔ پاکستان مذہب کے نام پر سیاست کے مضر اثرات سے واقف تھے۔ پاکستان کے عوام کو اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کرکے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا گیا کیونکہ اس سے پاکستان کے دو بازو، مشرقی اور مغربی پاکستان‘ ایک دوسرے سے سیاسی لحاظ سے بھی دور ہو گئے کیونکہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیشتر سیاسی جماعتیں مخلوط جبکہ مغربی پاکستان سے حمایت حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں جداگانہ طریقۂ انتخاب کی حامی تھیں۔ یہ اختلاف اتنا شدید تھا کہ 1956ء کا آئینی فارمولا بھی اسے دور نہ کر سکا اور مسئلے کا حل آئندہ منتخب ہونے والی پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا گیا۔ 1973ء کے آئین میںآخر اس کا فیصلہ مخلوط انتخابات کے حق میں کیا گیا مگر ضیاالحق نے اسے پھر ریورس کر دیا اور 1988ء کے بعد کے انتخابات جداگانہ یعنی مسلمان اور غیر مسلم ووٹرز کی الگ الگ فہرستوں کی بنیاد پر ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
پاکستان کی 74 سالہ ماضی کی تاریخ سے ایسے بے شمار واقعات اور حالات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جہاں سیاسی اور انتخابی مصلحتوں کے پیش نظر قائد اعظم کے نظریات سے روگردانی کی گئی، لیکن اس کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ اب جو کچھ موجود ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کے لائحہ عمل کا سوچنا چاہیے۔ حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین سمجھوتہ طے پانے کے بعد ملک میں جو سیاسی منظرنامہ ابھرا ہے‘ اس میں ریاست اور حکومت کمزور اور اس کے مقابلے میں احتجاجی جماعت طاقتور نظر آتی ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، حقیقت یہ ہے کہ ٹی ایل پی ملک میں ایک اہم سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔ گزشتہ (2018ء) کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے اسے قومی سطح پر پانچویں حیثیت حاصل تھی اور پنجاب میں اس کا تیسرا نمبر تھا۔ گزشتہ برسوں کے دوران منعقدہ ضمنی انتخابات میں بھی اس کی پرفارمنس متاثر کن تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پارٹی پاکستان کے سوادِ اعظم کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے اور سیاست کیلئے اس نے جس نعرے کا انتخاب کیا ہے، اس سے کوئی مسلمان اختلاف نہیں کر سکتا۔ اس پارٹی کی حمایت صوبہ پنجاب اور وہ بھی اس کے مرکزی حصے تک محدود ہے، جہاں اسے دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اگر پاکستان کے آئینی فریم ورک میں ٹی ایل پی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے پر آمادہ ہے تو اس کی اجازت دے دینی چاہیے۔ سیاسی عمل میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد یہ جماعت بھی دیگر ''آئینی‘‘ پارٹیوں کی طرح اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرلے گی بشرطیکہ اسے کسی طرف سے کسی خاص مقصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔