پاکستان نے اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل کرنے کے سلسلے میں ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے والا پاکستان واحد ملک نہیں‘ نہ ہی پاکستان نے اس ادارے سے پہلی دفعہ امداد حاصل کی ہے۔ 1958ء سے اب تک پاکستان امدادکیلئے 21 بار آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دے چکا ہے۔ موجودہ حکومت نے 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ 22واں معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے 39 ماہ کی مدت کیلئے 6 ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اس کیلئے کچھ شرائط بھی عائد کر دی تھیں۔ یہ شرائط ہی ہیں جن کی وجہ سے آئی ایم ایف کی پاکستان کے ساتھ ڈیل پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر کے مالیاتی حلقوں میں بھی بحث ہو رہی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ 2019ء کے معاہدے کے تحت پاکستان کو قرض دینے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے نے کچھ پیشگی اقدامات (prior sactions) کی شرائط رکھی ہیں۔ ان میں پہلی سٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کو یہ با اختیار ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی میں مکمل طور پر خود مختار(automonous) بنانا ہے‘ اور ضروری تھا کہ اس اقدام کی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے اس ڈیل کے ساتھ نتھی کی جانے والی شرط یہ ہے کہ پاکستان اپنے بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے اگر اپنے اخراجات گھٹا نہیں سکتا تو آمدنی بڑھانے کیلئے بجلی، گیس اور پٹرول پر ٹیکس لگائے، تاکہ آمدنی اور اخراجات میں توازن قائم ہو، دیگر الفاظ میں اس کا مطلب مالیاتی خسارے کو کم کرنا ہے جسے معاشی استحکام کیلئے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ افراط زر، مہنگائی اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر جیسے مسائل بھی مالیاتی خسارے کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔
گزشتہ 70 برسوں میں پاکستان کی ہر حکومت نے بیرونی امداد اور قرضوں کی صورت میں اس مالیاتی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ملک بیرونی قرضوں کی مع سود ادائیگی کے بوجھ تلے دبا چلا آ رہا ہے۔ 2019ء میں پاکستان سے معاہدہ کرتے وقت آئی ایم ایف نے واضح کر دیا تھا کہ اس کا سب سے بڑا اقتصادی مسئلہ مالی خسارہ ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے حکومت پاکستان کونہ صرف زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا، بلکہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی کرنا پڑے گا، تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس طرح درآمدات و برآمدات میں توازن پیدا کرنے میں مدد ملے گی، کرنسی کو استحکام ملے گا اور قرضوں کا بوجھ ہلکا ہو گا‘ اور یہ سب عوامل مل کر ملک کی معاشی ترقی کے پہیے کو چلائیں گے، غربت کم ہو گی اور عوام خوش حال ہوں گے۔ اس دوران حکومت نے آمدنی میں اضافے کیلئے ٹیکسوں میں اضافہ تو کیا، مگر ان کا بوجھ نچلے اور درمیانے طبقے کو اٹھانا پڑا۔ بڑے بڑے سرمایہ دار تاجر اور صنعت کار ان سے محفوظ رہے، کیونکہ حکومت اس طبقے سے خوفزدہ رہتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فنڈ کے ساتھ معاہدے کے 39 میں سے گزشتہ 29 ماہ کے دوران نہ تو ریونیو میں اضافہ ہوا، اور نہ ہی کرنسی میں استحکام آیا، بلکہ مالیاتی خسارہ بڑھتا گیا۔
آئی ایم ایف کے نزدیک موجودہ حکومت نے اس کی سفارشات پر عمل نہیں کیا۔ اس لیے اس نے 6 بلین ڈالرز میں سے مزید رقم ریلیز کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت پاکستان کی فنانس منسٹری کے نمائندے اس سال فروری سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے مذاکرات میں مصروف تھے، لیکن ادارے نے نہ صرف پہلے سے زیادہ شرائط لگا دیں بلکہ پاکستان کو قرضے کی باقی ماندہ رقم ریلیز کرنے سے قبل ان شرائط پر عملدرآمد کو لازمی قرار دیا۔ بعض مبصرین کے مطابق آئی ایم ایف کے اس سخت اور غیر لچک دار رویے کی پشت پر پاکستان سے امریکہ کی ناراضی کار فرما ہے۔ اس ناراضی کی وجہ ایک تو افغانستان میں جنگ کے دوران امریکہ کی نظر میں پاکستان کا غیر تسلی بخش کردار ہے اور دوسرا 2015ء میں چین اور پاکستان کے مابین طے پانیوالا اقتصادی راہداری کا معاہدہ سی پیک ہے۔ سی پیک کے تحت چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو سڑکوں، ریلوے لائنوں اور تیل و گیس کی پائپ لائنوں کے ذریعے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع بندرگاہ گوادر سے ملا دیا جائے گا۔
امریکہ اس منصوبے کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کوریڈور کی تعمیر سے چین کو خشکی کے راستے بحر ہند تک رسائی مل جائے گی۔ بحر ہند کو موجودہ دور میں مشرقی اور مغرب کے درمیان سب سے اہم راستہ خصوصاً تیل اور گیس کی سپلائی کے حوالے سے بحری شاہراہ سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ پانچ سو سے زیادہ برسوں سے اس خطے پر مغربی ممالک کو اجارہ داری حاصل ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ سی پیک کی تعمیر سے اس پورے خطے‘ جس میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ بھی شامل ہیں‘ میں امریکہ کی اجارہ داری اور غلبہ کمزور ہو جائے گا اور اس وقت دنیا میں اسے سب سے طاقتور ملک کی جو پوزیشن حاصل ہے وہ کمزور ہو جائے گی۔
جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے، ان میں افغانستان کی وجہ سے سرد مہری کا آغاز موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔ جب موجودہ حکومت کی طرف سے 2019ء میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا تو امریکہ نے اس کی اسی بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ امریکہ آئی ایم ایف سے ادھار لے کر پاکستان کو سی پیک کے تحت حاصل ہونے والے چینی قرضوں کی ادائیگی کی اجازت نہیں دے گا۔ چونکہ آئی ایم ایف کے فیصلہ سازی کے عمل میں امریکہ کو بہت زیادہ اثرورسوخ حاصل ہے، اس لیے آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست پر ابتدائی تامل کا اظہار کیا۔ پاکستان خصوصاً اپوزیشن کے حلقوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نے امریکہ کو سی پیک کی تعمیر میں سست روی کا یقین دلا کر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا ہے۔ حال ہی میں طے پانے والی ڈیل میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو مزید رعایتیں دی ہیں‘ جن میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کو پارلیمانی کنٹرول سے آزاد کرنے کی کمٹمنٹ بھی شامل ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ آزادی اور خود مختاری پر سمجھوتہ ہے‘ لیکن اس سے زیادہ تشویش آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کرنے پر حکومت کی رضا مندی پر ظاہر کی جا رہی ہے اور اپوزیشن کو حکومت پر یہ الزام لگانے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے تمام پیش روئوں کی طرح ٹیکسوں کا بوجھ کم آمدنی والے طبقات پر ڈال کر بڑے تاجروں، صنعت کاروں اور منافع خوروں کو بچا لیا ہے کیونکہ مبینہ طور پر یہ لوگ یا تو حکومت کا حصہ ہیں یا حکومت کی بقا ان امیر طبقات اور مافیا کی حمایت پر منحصر ہے۔ اگرچہ مشیر برائے فنانس شوکت ترین نے یقین دلایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے غریب طبقات پر منفی اثرات ڈالنے کے بجائے اخراجات کو کم کرنے کیلئے مخصوص رعایات کا طریقہ اپنایا جائے گا‘ لیکن ماضی کے تجربے کے پیش نظر نچلے اور درمیانے خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو حکومت کی یقین دہانیوں پر کوئی اعتبار نہیں۔ آئی ایم ایف سے اس ڈیل کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی محاذ پر بھی نئے اور سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔