انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ Give a dog a bad name and hang him‘ پاکستان میں اگر کسی سوشل گروپ کے بارے میں اس مقولے کے حوالے سے کچھ کہا جا سکتا ہے، تو وہ ''سیاست دان‘‘ ہیں۔ اخبارات کی سرخیاں بلکہ شہ سرخیاں، ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز اور ٹاک شوز کے موضوعات سیاست دانوں کی نااہلی، کرپشن، نالائقی، فنڈز کی چوری، اختیارات کے ناجائز استعمال، ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے، منی لانڈرنگ اور ہارس ٹریڈنگ جیسے الزامات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سیاست دانوں کی پاک دامنی کی قسم نہیں کھائی جا سکتی۔ وہ بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور معاشرے میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں، ان میں سے بہت سی برائیاں سیاست دانوں کے بھی حصے میں آتی ہیں‘ لیکن بات جب کبھی کسی ملکی اور قومی مسئلے کی چھڑ جاتی ہے تو ذمہ دار صرف سیاست دانوں اور سیاست دانوں کی حکومتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے‘ حالانکہ ملک کی سیاسی تاریخ کے 74 میں سے کم از کم 33 برس اسی قوم نے چار دور آمرانہ حکمرانی کے تحت گزارے ہیں۔ باقی عرصہ کے دوران بھی سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے 5 سالوں کے، حکومت اگرچہ سیاست دانوں کی رہی ہے، مگر کہا جاتا ہے کہ اختیارات کسی اور کے پاس تھے، اور اگر کسی سیاست دان نے آئین میں درج اپنے اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، ہم سب اس سے آگاہ ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپریل 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں خواجہ ناظم الدین کی وزارت کی معزولی اور اسی گورنر جنرل کے اقدام کے نتیجے میں اکتوبر 1954ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد سیاسی حکومت اور مقتدرہ کے مابین طاقت کے توازن کی اول الذکر سے موخرالذکر کی طرف جھکاؤ میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر تنہا سیاست دانوں کو اس رجحان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا؛ تاہم جہاں کہیں سیاست دانوں سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، ان کو نمایاں طور پر اجاگر کیا گیا ہے‘ بلکہ قوم کو درپیش تقریباً ہر مسئلے کی ذمہ داری‘ خواہ وہ مہنگائی ہو، یا بے روزگاری، پس ماندگی ہو یا غربت، تعلیم، صحت، انفرا سٹرکچر اور صنعت و زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کی کمی، ان سب کا ذمہ دار سیاست دانوں کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ یہ راگ اتنے اونچے سُروں میں الاپا جاتا ہے اور سیاست دانوں کی ناکامی کا ڈھول اتنے زور سے پیٹا جاتا ہے کہ ملک کی 74 سالہ تاریخ کے بعض انتہائی نازک مرحلوں پر سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے قوم کے لیے جو اہم خدمات سرانجام دی ہیں، ان کا اگر ذکر بھی کیا جائے تو اس کی مدھم آواز سنائی ہی نہیں دیتی، حالانکہ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس ملک کے قیام کے لیے جدوجہد کی قیادت ایک سیاست دان نے کی تھی۔ دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی ایک مثال نہیں کہ ایک دوسرے سے ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلہ پر واقع دھرتی کے دو ٹکڑوں میں رہنے والوں کو‘ جن کے درمیان مذہب کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہ تھی، ایک قوم کی شکل میں جوڑا گیا ہو۔ یہ کارنامہ‘ جسے ایک امریکی سکالر نے ایک معجزہ قرار دیا تھا، سیاست دانوں نے ہی سرانجام دیا تھا۔ یہ سیاست دان ہی تھے جنہوں نے ملک کے دوسرے حصے کو اکثریت کا مالک ہونے کے باوجود برابر نمائندگی کے اصول کی بنیاد پر آئین سازی پر راضی کر لیا اور یوں 1956ء کے آئین کی بنیاد پر عملاً ایک متحدہ پاکستان وجود میں آیا۔
اس متحدہ پاکستان کا وجود 1971ء میں نہیں بلکہ 1958ء میں ختم ہو گیا تھا، جب جنرل محمد ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کر کے وہ بنیاد مسمار کر دی جس پر ایک متحدہ پاکستان کی عمارت کھڑی تھی۔ 1971ء کی جنگ میں شکست سے نہ صرف قوم کا مورال پست ہو چکا تھا، اس کے 90 ہزار سے زائد قیدی دشمن کی قید میں تھے یا ہمارا ہزاروں مربع ایکڑ پر مشتمل سرحدی علاقہ بھارت کے قبضے میں جا چکا تھا، بلکہ ان سب سے بڑا قوم کو درپیش مسئلہ ایک متفقہ آئین کا نہ ہونا تھا۔ یہ سیاست دانوں ہی کا کام تھا کہ اندرون ملک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رٹ قائم کرنے کے بعد خارجہ تعلقات میں نہ صرف ہمسایہ بلکہ دور دراز خطوں میں واقع اہم ملکوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات بحال کر کے قوم کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔ عوام کے گرے ہوئے مورال کو سہارا دیا اور بیرونی دنیا میں پاکستان کے لیے خیر سگالی پیدا کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 1973ء کے آئین کی صورت میں قوم کو متحد ہو کر کھڑا ہونے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اگرچہ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق اور 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومتیں آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں تھیں اور ان دونوں حکمرانوں نے بالترتیب آٹھویں اور 17 ویں آئینی ترامیم کے ذریعے اصلی آئین کا حلیہ بگاڑ دیا تھا، تاہم قومی اتحاد اور ملکی سالمیت کے سمبل کی حیثیت سے 1973ء کا آئین آج بھی قائم ہے۔ یہ واحد دستاویز ہے جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں آپس میں اختلاف اور مختلف نظریات کی حامل ہونے کے باوجود متفق ہیں۔ پاکستانی قوم کی بھلا اس سے بڑی ضرورت اور کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن غداری کا الزام لگتا ہے تو سیاست دانوں پر۔ ان کے لیے جو القابات استعمال کیے جاتے ہیں‘ ان میں چور، ڈاکو، لٹیرے، بد عنوان اور اقربا نواز شامل ہیں‘ حالانکہ ان جرائم کے مرتکب افراد معاشرے کے دیگر طبقات میں بھی پائے جاتے ہیں‘ لیکن یہ الزامات صرف سیاست دانوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
یونان کے مشہور فلسفی اور افلاطون کے شاگرد، ارسطو کے مطابق سیاست اس فن کا نام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں مختلف بلکہ ایک دوسرے سے متصادم خواہشات، مفادات اور سوچ کے حامل افراد کے درمیان مصالحت پیدا کر کے معاشرتی استحکام پیدا کیا جاتا ہے، تاکہ امن، تعاون، ترقی، خوش حالی، محبت، بھائی چارے اور اخوت کا ماحول پیدا ہو۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ مقاصد سیاست اور سیاست دانوں کے ذریعے ہی حاصل ہوتے ہیں‘ بشرطیکہ انہیں خوف، جبر اور بے جا مداخلت سے پاک ماحول میں کام کرنے کا موقع میسر ہو۔ پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں سیاست دانوں کی مداخلت سے پیچیدہ سے پیچیدہ اور مشکل ترین مسائل کو بھی خوش اسلوبی اور باہمی اتفاق سے حل کیا گیا۔ 1991ء کا صوبوں کے درمیان دریائی پانی کے تقسیم کا معاہدہ اس کی ایک مثال ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آب و ہوا میں غیر معمولی تغیر و تبدیلی اور زراعت اور شہری آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے دریا کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ صرف ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ملکوں کے اندر بھی ایک نازک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے جنوب میں واقع دو ریاستوں یعنی کرناٹک اور تامل ناڈو کے مابین دریائے کاویری کے پانی پر تو جنگ کی سی صورت حال پیدا ہو چکی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں پنجاب اور سندھ حکومت کے درمیان اس مسئلے کو ایک سیاسی حکومت نے 1991ء میں ایک ایسے معاہدے کے ذریعے حل کرایا جس پر فریقین آج بھی قائم ہیں۔ اگر کچھ شکایتیں ہیں تو اس معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد سے متعلق ہیں۔ معاہدے سے کوئی فریق دستبردار نہیں ہوا۔
اس کے مقابلے میں جن مسائل کو سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں کے لیے ''نو گو ایریا‘‘ سمجھا جاتا ہے، وہ نہ صرف ایک عرصے سے حل طلب ہیں بلکہ دن بدن پیچیدہ اور ناقابل حل صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی اور بلوچستان میں شورش سے پیدا شدہ مسائل کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔